ماضی کی طاقت ماضی کا حصہ بننے جا رہی ہے ۔ پہلے روس دنیا کی سپر پاور تھی جو افغانستان کی سر زمین پر آ کر اپنا وجود اور طاقت کھو بیٹھا ۔ پھر وہی روس امریکہ کے سامنے مسکین بن کر کھڑا ہو گیا ۔ اس کے بعد امریکہ نے چھڑی پکڑ لی اور دنیا کو ہدایات دینے لگا ۔ جس سے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ۔ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے پوری دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ لیا ۔ یہ سب کچھ جنگ کے میدان میں ہوتا رہا پھر وقت نے پلٹا کھایا اور وہی امریکہ اسی افغانستان میں آ گھسا جہاں روس کو دھول چاٹنا پڑی تھی ۔ آخر کار امریکہ اس افغانستان سے ذلت کا شکار ہو کر نکلا ہے ۔ اب امریکہ کافی دیر تک اپنے زخم چاٹتا رہے گا ۔ جیسے روس کو دوبارہ سر اٹھانے میں کافی وقت لگا ہے اسی طرح امریکہ کو بھی سنبھلنے میں ایک عرصہ درکار ہے ۔ امریکہ کے اندرونی حالات بھی بد حالی کی گامزن ہیں ۔ امریکہ میں نسل پرستی ، ہم جنس پرستی اور معاشی بد حالی امریکہ کو دن بدن جھکائے جا رہی ہے اور امریکہ کبڑا ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر امریکہ کو سیدھا کھڑا ہونے میں جتنا عرصہ درکار ہے اس عرصے میں دنیا کا نقشہ کافی تبدیلی ظاہر کرے گا ۔ حالیہ تبدیلیاں چین کے سی پیک سے ہونے جا رہی ہیں اپنے موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے چین کے سی پیک اور دیگر معاشی تعلقات پر بات کر نا ضروری ہے ۔ ایران اور چین کے درمیان پچیس سالہ سٹریٹیجک اکنامک شراکت داری کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ ایک معتبر خبر رساں ادارے کے مطابق چینی وزیر خارجہ وانگ یی دو روزہ دورے پر تہران پہنچے معاہدے کے تحت چین اور ایران کے دوران توانائی انفراسٹرکچر سمیت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری متوقع ہے ۔ دونوں ممالک کے دوران دو طرفہ سرمایہ کاری بڑھانے کے معاہدے کے مسودے پر 2016 سے کام جاری تھا ۔ اب ایران چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے جا رہا ہے ۔ اس سے قبل 2018 میں امریکی پابندیوں سے قبل تک چین ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ جو امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران سے دوری پر چلا گیا ۔ اب چین نے دوبارہ ایران سے اپنی قربت بڑھا لی ہے جو توقع ہے کہ مستقبل میں امریکی پابندیاں بھی چین اور ایران کی قربت کے درمیان میں نہیں آ سکیں گی ۔ چین سی پیک کو ہر حال میں مکمل کرنا چاہتا ہے جس سے وہ اپنی لاکھوں ڈالر لا جسٹک اخراجات میں کمی چاہتا ہے کہ سی پیک سے پہلے سمندری راستوں سے اپنی اشیاء کو دنیا کی مارکیٹ تک لے جانے کیلئے اضافی سفر اور اخراجات کا سامنا تھا ۔ جو سی پیک سے سفر اور اخراجات میں کمی آ جائے گی ۔ جس سے چین کی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور اس فائدے سے چین دیگر معاشی منصوبوں کی متوجہ ہو سکے گا ۔ سی پیک کا براہ راست فائدہ چین کو ہوگا مگر جن ممالک سے سی پیک گزر رہی ہے ان ممالک کو بھی کثیر مالی فائدہ حاصل ہو گا ۔ مثلاً پاکستان کو سی پیک سے سالانہ لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہو گی ۔ جس پر پاکستان کا کوئی خرچہ نہیں ہوگا نہ ہی اپنی جیب سے کوئی انویسٹ منٹ کرے گا ۔ محض راہ داری کے محاصل سے لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہو گی ۔ چائنہ پاکستان سے گزر کر ایران کو اپنا تجارتی مرکز بنانا چاہتا ہے کہ اپنی اشیاء چائنہ سے اٹھا کر ایران میں سٹور کرے اور یہاں سے مڈل ایسٹ ، افریقہ اور دیگر قریبی ممالک کو سپلائی کرے اس کے ساتھ ترکی کے ذریعے یورپ تک اپنے راستے کو ہموار کرے یہی وجہ ہے کہ چین کا اگلا راستہ ترکی ہے اور ترکی کے ساتھ چین کے معاملات تقریباً طے پا چکے ہیں ۔ کچھ تجارتی اور عالمی ایشوز پر معاملات کا طے ہونا باقی ہے ۔ باقی کافی حد تک ہم آہنگی ہو چکی ہے ۔ پاکستان سی پیک میں محض راہ داری ہے کچھ صنعتی زون کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے مگر زیادہ توجہ ایران پر ہے ۔ اس راہ داری اور صنعتی زون کے قیام سے پاکستان کی قسمت کا ستارہ چمک سکتا ہے ان قربتوں اور منصوبوں کی وجہ سے مغربی دنیا بلخصوص امریکہ کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر یورپیئن ممالک چین کے اس منصوبے کے راستے میں پتھر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایران پر فوجی دبائو اور معاشی پابندیاں اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں کہ کسی طرح ایران کو چین سے دور رکھا جائے ۔ مگر وقت نے سب کچھ آسان کر دیا ہے کہ اب امریکہ چین کی معاشی اور فوجی قوت کے سامنے بے بس ہوتا جا رہا ہے ۔ گذشتہ ایام میں چین اور بھارتی فوجی کشمکش میں امریکہ نے دخل اندازی کرنے کی کوشش کی مگر بے بسی نے اس کے پائوں روک دیے اور بھارت کو اپنے روایتی حلیف کی طرف سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور بے بس ہو کر چین سے ڈائی لاگ کر کے سرحدی امور کو چین کی مرضی کے مطابق طے کرنا پڑا اور چین نے بھارت کو وہی بارڈر تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا جہاں وہ کھڑا تھا ۔ حالانکہ بھارت ایسے حالات میں ایسی صورت حال کو تسلیم کرنا اپنی موت سمجھ رہا تھا ۔ اگرچہ ایسی صورت حال کر تسلیم کرنے پر مودی سرکار کو اپوزیشن اور دیگر حلیف جماعتوں کی طرف سے شرمندگی کا سامنا رہا ہے اور کوئی مناسب موقف نہ اپنا کر عوامی سطح پر بھی کافی خفت اٹھانا پڑی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی انتخابات میں مودی اپنے ابائی صوبے گجرات سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔ بھارتی عوام نے مودی سرکار کو بزدلوں اور غداروں کا ٹولا قرار دیا ہے کہ چین خود کو سپر پاور منوا رہا ہے ۔ اگرچہ جنوبی ایشیاء میں امریکہ بھارت کو مضبوط کر کے چین کو اپنی طاقت کا پیغام دینا چاہتا تھا ۔ مگر چین کے ایک ہی وار سے بھارت کا غرور اور بھروسا خاک میں خاک ہو گیا اور امریکہ کو بھی اپنی طاقت کا احساس ہو گیا کہ اس سے پہلے امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر جنوبی ایشیاء اور چین کو کنٹرول کرنے کے خواب دیکھتا رہا جو پورا نہ ہو سکا اس کے بعد امریکہ کی نظریں بھارت پر تھیں مگر بہت جلد بھارت سے بھی نظریں اٹھ چکی ہیں ۔ اب چین ایران میں بیٹھ کر مڈل ایسٹ اور یورپ میں اپنی صنعتی اور معاشی طاقت کا مظاہرہ کرے گا ۔ میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں ۔ عالمی طاقت کے توازن کے متعلق اگر کسی کو سیر حاصل علم یا تبصرہ چاہیے تو اس کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مشہور زمانہ کتاب " If I am assesinated "کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’ اگر مجھے قتل کردیا گیا تو ‘‘ بھی مارکیٹ میں موجود ہے جو عالمی طاقتوں کی سازشوں اور منصوبوں کا انسائکلو پیڈیا ہے ۔ یہ کتاب بھٹو صاحب نے جیل میں بیٹھ کر لکھی تھی جو اس کی سیاسی زندگی کا خوبصورت تحفہ تھا ۔ اس وقت بھٹو صاحب بطور وزیر اعظم روس کے بہت قریب تھے اور امریکہ کو white elephant کہتے تھے ۔ روس نے بھٹو صاحب کو کراچی میں سٹیل مل لگا کر اپنی دوستی کا تحفہ دیا اور امریکہ نے بھٹو صاحب کو عدالتی قتل کروا کر اپنی دشمنی کا ثبوت دیا ۔ یوں بھٹو صاحب امریکہ کی دشمنی کا شکار ہوئے بھٹو صاحب امریکہ کے سامنے روس کو کھڑا کر کے عالمی طاقت کے توازن کو درست رکھنا چاہتے تھے ۔ مگر امریکہ روس اور صاحب دونوں کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا اور وہ کامیاب رہا اب چین امریکہ کو عالمی ویکٹری سٹینڈ سے اتارنا چاہتا ہے جو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے امریکہ کو اب بھی کسی صدر ضیاء کی ضرورت ہے مگر اب حالات ایسے نہیں ہیں ۔