29 مارچ بروز پیر 14 شعبان شبِ بارات کے موضوع پر اخبارات میں ’’اشاعت خصوصی‘‘ میں نامور علماء کرام، سکالرز اور مذہبی راہنمائوں کے مضامین چھپے ہوئے تھے۔ اسی روز رات تقریباً گیارہ کے بعد کم و بیش 35/40 بڑے ٹی وی چینلز پر خصوصی نشریات کا بھی اہتمام تھا۔ میزبان سمیت تقریباً سب چینلز کو شمار کریں تو کم از کم 150 مہمانوں کو اس اہم موضوع پر بات کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ یہ بھی ہدایات دی گئی تھیں کہ رات بھر اپنی عبادات کے بعد ملک میں کروناکے خاتمہ سمیت ملکی و قومی سلامتی اور امۃ مسلمہ کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ ملک بھر میں مٹھائی کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی دکانوں میں بڑی رونق تھی، لوگ اپنے اور پیاروں کی خاطر رنگ برنگی مٹھائی خرید رہے تھے سب سے زیادہ پذیرائی جلیبی کو بخشی گئی۔ کرونا کی وجہ سے مساجد اور خانقاہوں میں پابندی ہونے کی وجہ سے گو بڑے اجتماعات نہ ہو سکے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ محافل ضرور تھیں۔ تمام مواقع میں شرکا عمدہ ترین لباس زیب تن تھے۔ خوشبوئوں سے ماحول کمال کا تھا۔ چنانچہ ایسے پس منظر میں ہم نے 15 شعبان یعنی شب برات کی عبادت کی اور خصوصی دعائیں مانگیں جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ شب بارات فیصلوں کی رات، مغفرت کی رات، بخشش کی رات، عمر مقرر کی رات نصیب بدلنے کی رات، سارے کا سارا نظام بدلنے کی رات۔ اے اللہ ہم سب کے گناہ معاف فرمانا، ہمارے نصیب، ہمارا مقدر سب کچھ بدل دینا، اے ہماری سانسوں کے مالک ہم سب کو سلامت رکھنا۔‘‘ اس خلاصہ کو حاصل کرنے کے لیے چینلز اور اخبارات سمیت تقریباً 300 کے قریب علماء کرام اور سکالرز نے اپنی اپنی فکر اور سوچ کے تحت کم و بیش عبادات اور خصوصی نوافل ادا کرنے کے 50 کچھ طریقے بتا رکھے تھے۔ سوشل میڈیا پر ہر عام و خاص نے شب برات مبارک کے مختلف خوبصورت پیغامات لگا کر اپنی طرف سے اس مقدس رات کی فضیلت پر اپنی حاضری لگائی اور یوں یہ رات بسر ہو گئی۔ اگلے دن طبیعت میں کچھ اداسی تھی۔ بابا جی کا نمبر ملانا شروع کیا تو مسلسل بند ملا ۔ تقریباً 10 بجے کامیابی ملی، سلام دعا کے بعد حاضری کی اجازت چاہی، حکم ملا لنگر اکٹھے کریں گے۔ دس سے بارہ عقیدت مند رہ گئے۔ گذری رات پر بات چیت شروع ہوئی تو بابا جی کہنے لگے ’’پُتر جب بھی غلطی کا احساس ہو، تب ہی معافی مانگ لیا کرو، حتیٰ کہ دن میں بار بار کیوں نہ ہو۔ زندگی ہر بار شبِ بارات تک پہنچنے کا موقع نہیں دیتی‘‘ میں نے عرض کیا ایمان کیا ہے؟ بابا جی مسکرائے اور بولے پُتر، ایمان کیفیت کا نام ہے کہ جب ساری دنیا آپ کے مخالف کھڑی ہو، سارے سہارے آپ کو ٹھکرا چکے ہوں، لیکن آپ کو یقین ہو کہ اللہ اور اس کے محبوبؐ کی رحمت آپ کو اپنی آغوش میں جگہ خود دے گی۔ کہنے لگے پھل درخت کے اندر سے نہیں آتا۔ یقین نہیں تو درخت کاٹ کے دیکھ لیں لکڑی ہی لکڑی ہے۔ رزق زمین کے اندر سے نہیں آتا، یقین نہیں آتا تو کھدائی کر کے دیکھ لیں مٹی ہی مٹی ہے یہ تو سب اللہ کے حکم سے آتا ہے چاہے زمین سے نکالے یا آسمان سے اتارے ۔ پتر یاری رب دے نال ہونی چاہی دی اے ، بابا بھلے شاہ نے کیا کمال کہا :
چاہناں اے جے رب دی یاری
ہو جا ماں دے صدقے واری
سب تو سوہناں فرض نبھاویں
بچیاں رزق حلال کھواویں
پورا تولیں مٹھا بولیں
بھیت کسے دا کدی نہ کھولیں
سچ بولیں تے سچ دا کھاویں
دکھی دلاں دا درد وٹاویں
تگڑا ویکھ کے تو نہ ڈولیں
ماڑے اگے ہولا بولیں
سب پر مسکراہٹ سے ایک نگاہ مارتے ہوئے بابا جی کہنے لگے، قرآن مجید میں جتنی بھی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے، ان میں سے ایک بھی قوم کی تباہی کی وجہ روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑنا نہیں تھا بلکہ کم تولنا، رشوت ستانی، انصاف نہ کرنا، کسی کا حق کھانا، ملاوٹ کرنا، نا حق قتل کرنا، اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو معاملہ حقوق العباد کا تھا۔آج کل کی سائنس ، ترقی، ٹیکنالوجی، ون ورڈ آرڈر، مگر وہ اپنے ہونے کا احساس یوں بھی دلا دیتا ہے۔ بس تھوڑی سی زمین ہلا دیتا ہے۔ اور دوستو! ایک بات غور سے سن لو۔ ہم مسلمان ہیں۔ نبی پاکؐ کے امتی ہیں، یہ رب تعالیٰ کا ہم پر خصوصی انعام ہے کہ ان کا اُمتی بنایا اور اپنے بہت ہی پیارے حبیب جناب حضرت محمدﷺ کو ہمارے پاس بھیجا۔ ان سے محبت ، والہانہ عقیدت، ادب اور احترام ہو گا تو پھر باقی سب مسئلے حل ہونگے۔ ایک ہندو شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
جام پہ جام پیا اور مسلمان رہے
قتل اماموں کا کیا اور مسلمان رہے
یہی دین ہے تو اس دین سے توبہ ماتھور
شک پیمبر پہ کیا اور مسلمان رہے
جس نے پالا پیمبر کو وہ رہا کافر
یزیدیوں نے قتلِ حسینؓ کیا اور وہ مسلمان رہے
جذباتی ہو کر بابا جی فرمانے لگے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ نبی پاکؐ کے غلام ہیں۔ پرنور چہرے اور زور دار آواز میں کہنے لگے:
میں مطمئن ہوں شفاعت میرے رسولؐ کی ہے
رسولؐ میرے ہیں جنت میرے رسولؐ کی ہے
میں جانتا ہوں عدالت جو فیصلہ دے گی
میں جانتا ہوں وکالت میرے رسولؐ کی ہے
نبی پاکؐ کی وکالت کیسے ملے گی؟
دوستو! ہمارا یہ ایمان ہے کہ ایک دن قیامت آنی ہے۔ روزِ محشر پر امت اپنے نبیؐ کی قیادت میں اُٹھائی جائے گی۔ یہ روزِ حساب بھی ہو گا۔ اگر ہم چاہیں کہ ہمارے گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہمارے نبی پاکؐ کو ندامت اور شرمندگی نہ ہو تو اقبالؒ کے اشعار کو یاد کر لیں اور ان کو اپنا شعار بنالیں:
تو غنی از ہر دو عالم مَن فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
در حسابم راتو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
میں جانتا ہوں وکالت میرے رسولؐ کی ہے
Apr 01, 2021