کلاسیکی جمہوریت اور پاپ جمہوریت

معزز قارئین ! 11 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا تھا ۔ اُس وقت میری عُمر 11 سال تھی۔ آج مَیں اپنی عُمر کے پاکستانیوں اور اُنکی آل اولاد کی تفریح ء طبع کیلئے ایک ہلکا پھلکا سا کالم پیش کر رہا ہُوں ۔ملاحظہ فرمائیں ! عالمی شہرت یافتہ ، کلاسِیکی موسیقی کے گلوکار ، موسیقار ، اُستاد امانت علی خان مرحوم کے چھوٹے بھائی اور اُستاد حامد علی خان کے بڑے بھائی ’’ پٹیالہ گھرانہ ‘‘ کے اُستاد فتح علی خان 82 سال کی عُمر میںانتقال کر گئے تھے ۔ 5 جنوری 2017ء کو اُنہیں مومن پورہ لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک بھی کردِیا گیا ہے ۔ خان صاحب پاکستان اور بیرونِ پاکستان اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے ۔ کلاسِیکی گلوکاروں اور موسیقاروں کے گھرانے اُنکے "School Of Thought" (مکتبِ فکر ) کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ 1947ء میں اُستاد فتح علی خان کے بزرگ اور خاندان کے دوسرے لوگ مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ’’پٹیالہ ‘‘ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔ 
اُستاد فتح علی خان نے پوری دُنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام روشن کِیا ۔ اُن سے پہلے اُنکے بڑے بھائی (مرحوم) اُستاد امانت علی خان نے بھی ۔ اُستاد فتح علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارۂ امتیاز، تمغۂ خدمت، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز کے علاوہ کئی دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ سے نوازا گیا "Classic " کے لغوی معنے ہیں ۔ ’’ اعلیٰ درجے کا ، نمایاں طور پر قابلِ شناخت اور مثالی ہے ۔ قدیم یونانی اور لاطینی ادب، فنون ، ثقافت اور سادہ متناسب انداز و اسلوبِ موسیقی کو بھی کلاسِیک ہی کہا جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں کلاسِیکی موسیقی سے مُراد قدیم ہندوستانی موسیقی ہے ۔ چشتِیہ سِلسلے کے ولی حضرت نظام اُلدّین اولیاء کے مُریدِ حضرت امیر خسرو (1243ء ۔ 1325 ئ) ، فارسی ، ہندی ، برج بھاشا کے شاعر اور ’’ راگ وِدیا‘‘ (علمِ موسیقی) میں کامل تھے ۔ اُنہوں نے ایرانی اور ہندوستانی موسیقی کی آمیزش سے کئی راگ تخلیق کئے اور راگنیاں بھی ۔ ستارؔ امیر خسرو کی ہی ایجاد ہے ۔ 
گوالیار کے راجا رام چند کا درباری گائیک براہمن زادہ رام دینو ؔ۔ مُغل بادشاہ اکبر کے دربار میں ’’ شہنشاہِ موسیقی‘‘ اور ’’میاں تان سین‘‘ (سُروں کا سِپہ سالار) کا خطاب پایا اور اُسکے نو رتنوں میں بھی شامل ہوگیا۔ مَیں نے کئی سال پہلے آل انڈیا ریڈیو پر اُستاد بڑے غلام علی خان کا انٹرویو سُنا تھا۔ اُن سے پوچھا گیا تھا کہ ’’ آپ مسلمان ہیں ، پاکستان کیوں نہیں گئے؟‘‘ تو خان صاحب نے کہا تھا کہ ’’ ہم ایک بار پاکستان گئے تھے ۔ سرحد پر پہنچے تو سرحد پر پاکستانی اہلکاروں نے آپس میں کہا کہ ’’ لو جی ! میراثیوں کا گروہ بھی آگیا‘‘۔ اُستاد بڑے غلام علی خان نے کہا کہ ’’ کچھ دِنوں ہم بھارت واپس آگئے، یہاں ہمیں بھگوان کا روپ سمجھا جاتا ہے ‘‘۔ 
یورپ میں "Popular Music" المعروف "Pop Music" ( پاپؔ میوزک) 1750ء میں ایجاد ہُوا ۔  پاپ گلوکاروں اور موسیقاروں کو ’’ راگ وِدیا‘‘ سے واقفیت نہیں ہوتی۔ ’’سرگرم ‘‘ سے بھی واقفیت نہیں ہوتی صِرف شور شرابا ہوتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں بھی ’’پاپ ؔموسیقی ‘‘ کا رواج ہے ۔ ہندی زبان میں ’’ پاپؔ‘‘ کا مطلب ہے گُناہؔ ۔ بھارت اور پاکستان میں کلاسِیکی موسیقی کے قدر دان "Pop  Music" کو ’’ گُناہ‘‘ کے معنوں میں ’’پاپ موسیقی ‘‘ کہتے ہیں ۔  مَیں نے لڑکپن میں فلم ’’ تان سین‘‘ دیکھی تھی۔ کلاسِیکی گائیک کُندن لعل سہگل ہِیرو تھے یعنی تان سین ۔ مَیں نے دیکھا کہ میاں تان سین نے اکبر کے دربار میں ’’ دیپک راگ‘‘ گایا ۔ بول تھے…’’ جگ مگ،جگ مگ دِیا جلائو ،دِیا جلائو !‘‘
مَیں نے دیکھا کہ دیپک راگ گانے سے دربار اکبری کے بُجھے ہُوئے چراغ جل اُٹھے اور اُسکے ساتھ ہی راگ کی تپش سے تان سین کا جسم بھی جُھلس گیا ۔ وہ گائوں چلا گیا وہاں اُسکی محبوبہ ( تانی ) نے راگ ملہار گایا ۔ بارش شروع ہوگئی اور تان سین صحت مند ہوگیا۔ ہمارے یہاں کلاسِیکی موسیقی کو رُوح کی غذا کہا جاتا ہے ۔ ہمارے اردو ، پنجابی ، سندھی ، پشتو اور براہوی زبانوں کے صُوفی شاعروں کی شاعری بھی رُوح کی غذا ہے ۔ یہ شاعری ’’عِلم عروض ‘‘ کے مطابق کی گئی جذبوں کی شاعری آج بھی زندہ ہے لیکن یورپ کی نقل میں "Blank Verse" ( قافیہ اور ردیف کے بغیر شاعری)  جذبوں کو بیدار نہیں کرتی۔اِسی طرح ہم جمہوریت کو بھی ۔ "Classic Democracy" اور "Pop Democracy" میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ 
جِن ملکوںمیں اعلیٰ درجے کی اور متناسب انداز و اسلوب کی مِثالی جمہوریت نہ ہو اور وہاں "Democratic  Mafia" کا راج ہو اُسے تو ’’پاپؔ جمہوریت ‘‘ ( Pop Democracy) ہی کہا جائیگا ۔ہمارے یہاں بھی ’’پاپؔ جمہوریت‘‘ کا پاپ ؔ (گُنا) اُن حکمرانوں کی گردنوں پر کیوں نہیں ہوگا ، جنہوں نے پاکستان کے 60 فی صد ’’جمہور‘‘ کو غُربت کی لکِیر سے نیچے دھکیل کر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ 
مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبال جب وہ وکالت کرتے تھے تو ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے ، باقی مقدمات اپنے دوست ، سینئروُکلاء اور شاگردوں میں تقسیم کر دِیا کرتے تھے ۔ قائداعظم نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے منصب سنبھالا تو اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھااور قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو حکومت اور پاکستان مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ یہ الگ بات کہ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جب، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان ( پاکستان کنونشن مسلم لیگ ) کے صدر کے مقابلے محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بنیں تو، ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب مجید نظامی نے آپ کو ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔ 
نئی دہلی کے "Diplomatic Enclave" چانکیہ پوری میں جس بنگلے میں پاکستان ہائی کمشن کے دفاتر ہیں ، وہ قائد ِ ملّت وزیراعظم لیاقت علی خان نے حکومت پاکستان کو تحفے میں دیا تھا ۔ علاّمہ اقبال کو عِلم تھا کہ ’’ شاید کبھی پاکستان میں ’’ پاپؔ جمہوریت ‘‘ شروع ہو جائے ؟ ۔آپ پیشگی کہہ دِیا تھا کہ … 
’’ جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں! 
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے ! ‘‘
اُستاد فتح علی خان تو با کمال تھے ۔ اپنے کمالات دکھا کر خالقِ حقیقی سے جا مِلے لیکن ہم ’’پاپؔ جمہوریت ‘‘ میں زندہ ہیں ہم کیا کریں ؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...