پاکستان کی سیاست جس تیزی کے ساتھ رنگ بدلتی جارہی ہے‘ اسکے پیش ِ نظر کسی بھی قسم کی حتمی رائے قائم کرنا یا پیش گوئی کرنا بے حد مشکل ہے۔ بظاہر اس وقت حزب اختلاف کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے‘ برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اسکے اتحادی اگرچہ ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد بالآخر ناکام ہوگی اور حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں یوں ہی قائم رہے گی۔ اس ضمن میں خود وزیراعظم کو 80 فیصد گمان ہے کہ وہ اس تحریک عدم اعتماد میں بچ جائیں گے۔ ان کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ عدم اعتماد جمہوری طریقہ اور سیاسی بحران پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے۔ تاہم موجودہ عدم اعتماد بیرونی سازش ہے اور ہمارے بعض اتحادی جانے انجانے میں اس سازش کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ باہر کے ممالک سے ایک ٹیلی فون کال پر پورے ملک کو کنٹرول کرتے تھے‘ وہ لوگ یہ قطعی برداشت نہیں کرینگے کہ ایسی قیادت آئے جو ملک کے مفاد میں فیصلے کرے۔ دوسری طرف حزب اختلاف بھی پوری طرح مطمئن ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔ اپوزیشن قائدین سے طویل مذاکرات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے دو الگ الگ معاہدے کئے ہیں‘ ایک پاکستان پیپلزپارٹی اور دوسرا مسلم لیگ نواز کے ساتھ ۔ ان معاہدوں کے بعد متحدہ نے حکومت سے راستے الگ کرلئے ہیں اور اپوزیشن کا مکمل ساتھ دینے کا باضابطہ اعلان بھی کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہبازشریف نے اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن قرار دیا اور کہا کہ شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اپوزیشن کو قومی اسمبلی کے 175 ارکان کی حمایت حاصل ہے جس میں ایم کیو ایم‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)‘ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جمہوری وطن پارٹی کے علاوہ آزاد ارکان بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن کا یہ مطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان چونکہ اکثریت کھو چکے ہیں اس لئے اب ان کا بطور وزیراعظم رہنے کا جواز نہیں رہا۔ وہ استعفیٰ دیکر حکومت سے باہر آجائیں۔
قطع نظر اسکے کہ تحریک عدم اعتماد کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ یہ بات بہرحال حکومت کیلئے تشویش اور پریشانی کا باعث ہونی چاہیے کہ صرف ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ہی ایسے کیا حالات پیدا ہو گئے کہ اس کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی نوبت آگئی۔ حکومتی حلقے بھلے سے اسے بیرونی سازش کا نام دیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس عرصہ اقتدار کے دوران پاکستان کے کروڑوں عوام کو مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ بدترین طرز حکمرانی‘ ناقص معاشی پالیسیوں‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور عوام دشمن اقدامات نے عوام کی اکثریت کو اس حکومت سے بیزار کردیا ہے۔ لوگوں کو یہ بجا طور پر امید تھی کہ عمران خان مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے ستائے عوام کو ریلیف مہیا کرینگے۔عوام ذہنی سکون اور آسودگی محسوس کرینگے اور ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد ۔وزیر اعظم نے اپنے انتخابی جلسوں اور پارٹی منشور میں جو وعدے کر رکھے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو سکا۔ اپنا سارا عرصہ اقتدار انہوں نے اپنے مخالفین کیخلاف انتقامی اقدامات کرنے میں ضائع کردیا۔ جو کام نیب اور آزاد عدلیہ کا تھا‘ اسکی ذمہ داری انہوں نے خود اٹھالی اور جو کام بطور وزیراعظم پاکستان کرنے کا تھا‘ اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ عوام تین سالوں سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا رونا روتے رہے‘ پٹرول‘ بجلی‘ گیس سمیت ضروریات زندگی کی تمام اشیاء عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نکل گئیں لیکن حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلا شبہ حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ عوام کی حمایت سے سڑکوں پر آکر حکومت کیخلاف کوئی تحریک پیدا کرسکتیں۔ عوام میں ان جماعتوں کے حوالے سے کوئی ہمدردی پائی جاتی تھی اور نہ ہی کشش‘ لیکن عمران خان کی پالیسیاں خود انکے اپنے راستے کا پتھر بن گئیں۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی میں جب ان کیلئے جینے کی آس بھی دم توڑنے لگی تو حزب اختلاف نے اس عوامی مایوسی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے حکومت مخالف تحریک برپا کر دی۔ حکومت کی پالیسیوں اور اسکے نااہل وزیروں اور مشیروں نے حکومت مخالف تحریک کو مہمیز دی اور اپوزیشن کیلئے زیادہ محنت کئے بغیر ہی مقاصد حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے بظاہر عام آدمی کو کوئی سروکار نہیں‘ آج بھی عام آدمی اپنے جن مسائل میں الجھا ہوا ہے‘ اپوزیشن کے پاس ان مسائل کے حل کا کوئی قابل عمل منصوبہ‘ کوئی پلاننگ اور کوئی پروگرام نہیں ہے‘اسے عام آدمی کے مسائل سے رتی برابر بھی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ حکومت کو گرانے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کیلئے کوئی روڈمیپ دیتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت میں بھی اس بارے کوئی شعور ہے اور نہ ہی ادراک۔ اسے بھی عوامی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس وقت بھی جبکہ اسے اپنے بچائو کیلئے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اچانک بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی ہے۔ روزانہ ہر ایک گھنٹہ کے بعد بجلی غائب ہو جاتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔اس کی تمام تر توجہ اپنی بقاء پر مرکوز ہے اور اس کا منطقی نتیجہ ہی ہے کہ پوری سرکاری مشینری جامد ہو چکی ہے۔ امور مملکت کی انجام دہی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ سو ان حالات میں وزیراعظم کا تحریک عدم اعتماد کے مقابلے کیلئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے بجائے عوام الناس سے براہ راست رابطہ کرنے کا فیصلہ ثمرآور نہیں ہو سکتا۔ جب تک عوام کو ریلیف نہیں مل پاتا‘ انکی ہمدردیاں حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار عوامی حمایت اور عدم حمایت پر ہوتا ہے ، وزیراعظم کو آج یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔