اسلام آباد (وقائع نگار) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکندر خان نے جج دھمکی کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے جاری ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری میں تبدیل کردیا۔ نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران عمران خان کے جونیئر وکیل زکریا عارف، تھانہ مارگلہ کے تفتیشی افسر کی جگہ سب انسپکٹر سفیر علی ریکارڈ سمیت عدالت پیش ہوئے جبکہ پراسیکیوٹر عدنان علی انسداد دہشتگردی عدالت مصروفیت کے باعث پیش نہ ہوئے۔ جونیئر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے سینئر کونسل کو دل کا عارضہ لاحق ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں، استدعا ہے کہ سماعت منگل تک ملتوی کی جائے۔ جج نے کہا کہ عمران خان کے وکالت نامہ میں قیصر امام کا نام بھی ہے، وہ کہاں ہیں، تو پھر وارنٹ دوبارہ بحال کر دیتے ہیں، اگر آپ کی طرف سے کوئی وکیل نہیں آ رہے۔ عدالت نے عمران کے کسی سینئر کونسل کو عدالت پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر عمران کی جانب سے قمر عنایت راجہ پیش ہوئے۔ سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی پیش نہ ہوئے اور عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کے کیس میں راجہ رضوان عباسی سپیشل پراسیکیوٹر ہیں اور وہ آرہے ہیں، سماعت میں تھوڑا وقفہ کیا جائے، جس پر عدالت نے پھر سماعت میں وقفہ کردیا۔ جس کے بعد پھر سماعت شروع ہونے پر سپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوگئے۔ عمران خان کے جونیئر وکیل نے کہاکہ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سے آ رہے ہیں، سپیشل پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ پیر کے روز دلائل رکھ لیتے ہیں، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ پھر پیر تک عمران خان کے وارنٹ کی توسیع کردیتے ہیں۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ نہیں پھر دلائل آج ہی طلب کرلیں ورنہ ملزم کو ریلیف مل جائے گا۔ عدالت نے ایک بار پھر سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری عدالت پیش ہوگئے اورکہاکہ میں رسک پر آیا ہوں، سپریم کورٹ چھوڑ کر سیشن عدالت آیا ہوں۔ عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ سیشن ہو یا ہائیکورٹ، عدالت تو عدالت ہوتی ہے۔ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ 18 اپریل کو عمران خان کی عدالتی پیشی ہے، گرفتاری کے حوالے سے کیا صورتحال ہے؟۔ عدالت نے کہاک ہ سپیشل پراسیکوٹر رضوان عباسی کو آنے دیں تو معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان قتل ہونے سے پہلے ہر عدالت پیش ہوئے، اس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا اور جج نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قتل ہونے سے پہلے؟۔ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟، اس موقع پر عدالت کے جج نے وکیل فیصل چوہدری کے دلائل درست کروائے اور کہاکہ ہم چاہتے ہیں ہر عدالت ہر ملزم کے لیے محفوظ ہو،فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ اگر عمران خان پر قاتلانہ حملہ نہ ہوتا تو سکیورٹی خدشات نہ ہوتے۔ عمران کے وکیل کی جانب سے بار بار التوا کی استدعا پر عدالت نے کہاکہ اگر سماعت میں التوا دیدی تو پھر ناقابلِ ضمانت وارنٹ بحال ہو جائیں گے۔ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ غیرقانونی ہے، عمران خان نام ہونا کوئی جرم تو نہیں،پیر تک سماعت میں وقفہ کردیں اور وارنٹ معطل ہی رکھیں،اسی دوران سپیشل پراسیکوٹر پیش ہوگئے، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ عمران خان کے کیس کو معمولی کیس کے طور پر کیوں نہیں لیا جاتا؟،کیا حکومت عدالت کے کندھے پر رکھ کر فیصلہ اپنے حق میں چاہتی ہے؟، پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ بالکل قانون کے مطابق ہے،عمران خان پیش نہیں ہوئے اور معمول کے مطابق پیش نہیں ہوئے،بار بار عمران خان کی عدم حاضری ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔عدالت نے کیا،جو دلائل عمران خان کے وکلاء نے دیے ان ہی کی بنیاد پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے،سیشن عدالت نے فیصلہ دیاکہ پہلے قابلِ ضمانت اور پھر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں اور ایساہی ہوا،فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ مقدمے میں عمران خان پر تو دفعات ہی قابلِ ضمانت لگی ہوئی ہیں،جوڈیشل مجسٹریٹ کو سیشن عدالت نے پہلے قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنے کی ڈائریکشن دی،جب قابلِ ضمانت نکلے ہی نہیں تو ناقابلِ ضمانت وارنٹس کو کیسے عمل میں لایا جاسکتا ہے،عمران خان پر وہی قانونی طریقہ کار لاگو ہوتا ہے جو دیگر ملزمان پو ہوتاہے،کیا سیشن عدالت کی فیصلے کے بعد قابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے؟ نہیں ہوئے،سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ ملزم کو یا نوٹس یا وارنٹ کے ذریعے عدالت بلایا جاتا ہے، عمران خان کو وارنٹ کے ذریعے عدالت پیش کرنے کا حکم دیاگیا، کیوں پیش نہیں ہوئے؟، اگر عام شہری کے لیے وارنٹ جاری ہوں تو ملزم کی عدالتی پیشی پر وارنٹ کا فیصلہ کیاجاتاہے،جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر کے فیصلے کے مطابق ہی ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیے،عمران خان کو ایک ایک عدالتی تاریخ کا معلوم ہیلیکن عدالت پیش نہیں ہوتے،عمران خان چاہتیہیں کہ عدالت پیش بھی نہ ہونا پڑے اور عدالت وارنٹ بھی نہ نکالے، استدعا ہے کہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری فیصلہ کی نظرثانی اپیل خارج کی جائے، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا عدالتی بیلف نے عمران خان کے وارنٹ کی تعمیل کروائی؟ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ تفتیشی افسر سے پوچھیں! زمان پارک تفتیشی افسر گیا تو اس پر تشدد کیا جائے گا، وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو 18 اپریل تک قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری میں تبدیل کرتے ہوئے20 ہزار روپے مالیتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیدیا۔