ام المومنین نازونعم اور اخلاق حسنہ کا نمونہ

Apr 01, 2023

ام المومنین سیدہ طاہرہ حضرت خدیج?الکبریٰ رضی اللہ عنہما

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی
حضرت خدیجہ ؓ کائنا ت کی وہ عظیم ہستی ہیں جن کو حضور پاک کی پہلی بیوی زوجہ ہونے کا شرف اعظم حاصل ہے آپ کا نام خدیجہ،لقب طاہرہ،ام ہند کنیت ہے آپ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے کہ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصیٰ قصیٰ پر پہنچ کر آپ کا خاندان سرورکونین کے عظیم خاندان سے جاملتا ہے آپ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز فردتھے اور مکہ آکر اقامت اختیارکی اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے نکاح کیا جن کے بطن سے عام روایت کے مطابق حضرت سیدہ خدیجہ عام الفیل سے پندرہ سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں آپ کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں سے ہوتا تھا اور آپ بہت بڑے تاجر تھے چنانچہ سیدہ کی تربیت بڑے نازونعم سے ہوئی۔آپ کے اعلیٰ اخلاق بلند کردار دولت وشرافت اور عزت کی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجالیکن آپ نے بڑی حکمت اور خاموشی سے رد کر دیا آپ کے مال ودولت اور سامان تجارت کی بہت کثرت تھی آپ اس زمانے میں خود لکھنا پڑھناجانتی تھیں اس لئے اپنے سامان تجارت کی خود نگرانی کیا کرتیں تھیں جس کی وجہ سے آپ کا تجارتی سامان شام و یمن تک پہنچ گیا آپ کا تجارتی قافلہ سب سے بڑا ہوتا اور آپ اپنا سامان تجارت مختلف لوگوں کے ذریعے شام و یمن تجارت کیلئے بھیجا کرتیں تھیں ۔
 حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلوں کی نگرانی آپ کے قابل اعتماد اورمعاملہ فہم غلام میسرہ کے سپردتھی ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک دفعہ آپ کے اسی غلام میسرہ نے سرکاردوعالم کی امانت دیانت شرافت اور عالی نسب کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلہ کا نگران اور شریک حضرت محمد بن عبداللہ کو بنا کر بھیجا جائے اس دوران آپ دیانت دار تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے اور آپ پورے عرب میں صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے حضرت سیدہ خدیجہ نے غلام کا مشورہ مانتے ہوئے حضور سے بات چیت کرنے کو کہا اور حضور پاک نے اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کے مشورہ سے سیدہ خدیجہ کی اس پیشکش کو قبول کر لیا اور ان کے غلام میسرہ کے ہمراہ تجارتی قافلہ کو لیکر شام کے سفر پر روانہ ہو گئے دو ماہ بعد جب تجارتی قافلہ واپس آیا تو سیدہ کے غلام میسرہ نے شام کے تجارتی قافلہ اور سفر کے حالات وواقعات بیان کرتے ہوئے حضور پاککی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں کافی عرصہ سے آپ کی خدمت میں ہوں اس دوران ہر طرح کے لوگوں سے میرا واسطہ پڑا لیکن محمد بن عبداللہ کی رفاقت میں جو کچھ میں نے دیکھا وہ عجیب تر ہے میں نے محمد بن عبداللہ کو مشکلات میں بلند حوصلہ،مصائب میں پرسکون،ہجوم میں باوقار،اور خرید وفروخت میں انتہائی ذہین وفہیم اور دور اندیش دیکھا ہے وہ بردبار اور متحمل نوجوان ہیں ان کی خاموشی میں وقار اور گفتگو میں دلکشی ہے ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی لوگ ان کو صادق اور امین کہتے ہیں تو وہ اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں ان کے موتی جیسے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں ان کی سوچ بہت وسیع اور کردار میں تنہا ویکتا ہے وہ لاکھوں میں ایک اور اپنی مثال آپ ہیں آپ تجارت ان کے سپرد کردیں پس کاروبار چمک اٹھے گا دوسرے روز حضور نے شام کے سفر کا حساب کتاب پیش کیا تو اس دفعہ سیدہ کو توقع سے بڑھ کر بہت نفع ہوا ۔
کاروبار تجارت میں سرکار کی امانت دیانت اور آپ کی سچائی نے سیدہ کو بہت متاثر کیا حضرت سیدہ خدیجہ نے اپنی عزیز ترین سہیلی نفیسہ کے ذریعے سرکار کو نکاح کا پیغام بھیجا سرکاردوعالم نے اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کے مشورہ سے نکاح کا پیغام قبول فرما لیا مقررہ تاریخ کے مطابق آپ کے چچا ابو طالب نے حضور پاک کا نکاح ملت ابراہیمی کے مطابق پڑھایانکاح کے وقت حضور پاک کی عمر مبارک صرف ۵۲ سال اور سیدہ خدیجہ کی عمر مبارک ۰۴ سال تھی ابن سعد نے مہر کی رقم ۰۰۵ درہم جبکہ ابن ہشام نے بیس اونٹوں کا ذکر کیا ہے آپ کی دعوت ولیمہ میں گوشت اور روٹی کاانتظام کیا گیا جب سرکار کی عمر مبارک ۹۳ برس سے زائد ہو گئی تو آپ مکہ سے اڑھائی میل دور غار حرامیں عبادت کے لئے جاتے تھے حضرت خدیجہ وہ مقدس خاتون جنت ہیں جنہوں نے نبوت سے قبل ہی بت پرستی ختم فرما دی تھی چنانچہ مسند ابن حنبل میں روایت ہے کہ سرکاردوعالم نے حضرت خدیجہ سے فرمایا بخدا میں کسی لات و عزی کی پوجا نہیں کروں گا تو انھوں نے عرض کیا لات کو جانے دیجیے اور عزی کو جانے دیجئے یعنی ان کا ذکر بھی نہ کریں سیدہ خدیجہ کو حضور پاک کی پہلی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ حضور پر ایمان لانے والی پہلی انسان اور پہلی خاتون ہونے کا شرف حاصل ہے۔
آپ کے بطن مبارک سے سرکار کی اولاد میں دو صاحب زادے جن کا بچپن میں وصال ہو گیا تھا اور چار صاحبزادیاں شامل ہیں۔ شعب ابی طالب کا گھاٹی میں تین سال کا عرصہ مسلمانوں نے انتہائی دکھ تکلیف مصیبتوں اذیتوں میں گزارا ان قیامت خیز لمحات اور آزمائش کی گھڑیوں میں ام المومنین نے بڑے صبر استقامت کا مظاہرہ کیا اور ہر ممکن طرح حضور کی خدمت کی اور آپ کا خیال رکھا ۔ان تفکرات کے ہجوم کی وجہ سے ام المومنین کی طبیعت اکثرخراب رہنے لگی آپ کے چچا ابوطالب کی وفات کے چند روز بعد ہی آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون اول اور رفیقہ حیات سیدہ حضرت خدیجہ ؓ رفاقت کے ۵۲ سال گزارنے کے بعد ۰۱ رمضان المبارک کو ۵۶ برس کی عمر میں وصال فرماگئیں ۔حضور پاک نے آپ کے جسد خاکی کو خود قبر انور میں اتر کر ان کو دفن فرمایا ،آپ ہمیشہ ان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔

مزیدخبریں