وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے رواں سال اکتوبر میں عام انتخابات کا عندیہ دے دیا ہے۔ گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 12 یا 16 اگست کے بعد ہماری حکومت نہیں ہوگی اور 16 اگست کو عبوری حکومت آجائیگی۔ انتخابات کرانا عبوری حکومت کا ہی کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہونا چاہیے‘ لوگوں کو معاملات کے حل کیلئے مشاورت سے کام لینا چاہیے۔ رانا ثناءاللہ کے بقول ملک اس وقت افراتفری اور انارکی کی طرف کھڑا ہے جس کیلئے عمران خان نے دس سال محنت کی ہے۔ انہوں نے ملک کو انتشار کی جانب لے جانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ معاملات کو حل کرنے کیلئے گریٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ایک بیان دینے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ڈائیلاگ ہی بہتر راستہ ہے لیکن اس کیلئے درست لائحہ عمل بنایا جائے۔ انہوں نے 8 اکتوبر کو عام انتخابات کے انعقاد کا بھی عندیہ دیا اور کہا کہ عمران خان نے دو صوبائی اسمبلیاں اس لئے توڑیں کہ مقررہ وقت سے پہلے انتخابات ہوں۔ دو اسمبلیوں کا الیکشن الگ اور باقی دو کا الگ ہو۔ عمران خان کا یہ اقدام ملک کیلئے بہتر نہیں۔ اس سے ملک میں انارکی آئیگی۔ عمران خان تو حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں‘ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہی نہیں۔
ملک و قوم کیلئے اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا صورتحال ہو گی کہ سیاست دانوں کی ایک دوسرے کیخلاف مفادات کی جنگ میں ریاستی انتظامی ادارے بھی براہ راست شریک ہو چکے ہیں اور سیاست دانوں ہی کی طرح پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں جبکہ اس چپقلش و محاذآرائی میں قوم کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔ اپنے روٹی روزگار کے گھمبیر اور روزافزوں مسائل پر عوام سربگریبان ہیں کہ انکی قومی قیادتیں انکے مسائل کے حل کی جانب توجہ دینے کے بجائے اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں جبکہ اس صورتحال میں سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کیلئے بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال اعلیٰ عدلیہ کے اندر سے برآمد ہو رہی ہے۔ بے شک آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری پوری قوم کا مطمح نظر ہے جس کیلئے تمام ریاستی‘ انتظامی اداروں اور انکے سربراہان نے آئین میں متعین کردہ اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے ہیں جبکہ آئین کی کسٹوڈین اور شارح کی حیثیت سے آئین کی عملداری کے تقاضے نبھانے کی ذمہ داری بھی بالخصوص سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے مگر بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس اعلیٰ ترین اور مقدس فورم کی اعلیٰ قیادت نے بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاست دانوں کی جاری مفادات کی جنگ میں بوجوہ خود کو شریک کر لیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاءبندیال کی جانب سے اپنے ازخود اختیارات کے تحت اٹھائے جانیوالے اقدامات اور کئے جانے والے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اندر بھی خلفشار کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور اس تاثر نے مزید خرابی پیدا کی ہے کہ فاضل چیف جسٹس سیاسی نوعیت کے مقدمات میں اپنے ہم خیال فاضل ججوں کو اپنی سربراہی میں تشکیل دیئے جانیوالے بنچوں میں شامل کرکے ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اسکی قیادت کے حق میں انصاف کا ترازو جھکا رہے ہیں۔ اس معاملہ میں سب سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ ہی کے اندر آواز بلند کی اور مخصوص بنچوں کی تشکیل پر سوالات اٹھائے۔ پھر جب چیف جسٹس نے عمران خان کی جانب سے تحلیل کی گئی پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات کے معاملہ میں ازخود نوٹس لے کر عدالت عظمیٰ کا 9 رکنی وسیع تر بنچ تشکیل دیا تو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے آغاز ہی میں بنچ کے دو فاضل ارکان نے اس معاملہ میں ازخود کارروائی پر سخت اعتراضات اٹھائے جبکہ بنچ کے دوسرے دو فاضل ارکان کی بنچ میں شمولیت پر حکومت کی جانب سے اعتراضات سامنے آگئے۔ چنانچہ فاضل چیف جسٹس نے ان چاروں فاضل ججوں کو بنچ سے الگ کرکے باقیماندہ پانچ ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دے دیا۔ اسکے باوجود بنچ کا فیصلہ تین دو کی اکثریت سے صادر ہوا۔ یہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو گئی جب 9 رکنی بنچ سے الگ کئے گئے دو فاضل ججوں نے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کے معاملہ میں اپنے اختلافی نوٹس کو پانچ رکنی بنچ کے دو فاضل ججوں کے اسی ایشو پر اختلافی نوٹس کے ساتھ ملا کر اسے چار ججوں کے اکثریتی فیصلہ کی حیثیت دے دی۔ اسی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں قائم سہ رکنی بنچ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران ازخود اختیار سے متعلق اور دوسرے اہم سیاسی معاملات پر عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت مقدمات کی سماعت روکنے کے احکام صادر کر دیئے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر تحلیل شدہ اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کے معاملہ میں پی ٹی آئی کے کیس کی سماعت کرنیوالے پانچ رکنی بنچ کے ایک فاضل رکن جسٹس امین الدین خان نے کیس کی سماعت کے دوران ہی بنچ کا حصہ بننے اور کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی جس پر یہ بنچ ٹوٹ گیا تاہم فاضل چیف جسٹس نے باقیماندہ چار ججوں پر مشتمل نیا بنچ تشکیل دے دیا مگر جمعة المبارک کے روز ایک جانب چیف جسٹس کی زیر ہدایت رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے ایک انتظامی سرکلر جاری کیا گیا جس کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے بنچ کے مقدمات کی سماعت روکنے سے متعلق فیصلہ کو غیرمو¿ثر قرار دے دیا گیا اور دوسری جانب چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم چار رکنی بنچ کے ایک فاضل رکن جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کیس کی سماعت کے آغاز ہی میں بنچ میں شامل رہنے سے معذرت کرلی چنانچہ چیف جسٹس کا تشکیل کردہ یہ بنچ بھی ٹوٹ گیا جس سے اعلیٰ عدلیہ میں پیدا ہونیوالے خلفشار کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سیاسی اور عدالتی سطح پر یہ صورتحال انتخابات کے حوالے سے ہی پیدا ہوئی ہے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے دو صوبائی اسمبلیاں توڑیں تو حکمران اتحاد نے اس سیاست کے توڑ کیلئے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے سے گریز کا راستہ اختیار کرلیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اسی معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا جس پر پیدا ہونیوالا بگاڑ آج گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو چکا تھا کہ شاید عام انتخابات بھی مقررہ معیاد کے اندر منعقد نہ ہو پائیں اور سسٹم کی بساط ہی لپیٹ لی جائے۔ اس غیریقینی کی فضا میں وفاقی وزیر داخلہ نے 16 اگست کو عبوری وفاقی حکومت تشکیل پانے اور آٹھ اکتوبر کو عام انتخابات کا عندیہ دیا ہے تو اسے گھمبیر آئینی سیاسی اور عدالتی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کا خوش آئند عمل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر سیاسی اور دوسری ادارہ جاتی قیادتیں اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں تو باہمی مشاورت سے اکتوبر کے عام انتخابات کے اس مجوزہ فارمولے کو قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے ملک اور سسٹم کو درپیش سیاسی اور آئینی بحران بھی ٹل جائیں گے اور جمہوریت کی گاڑی بھی رواں دواں رہے گی۔ اگر کچھ محترم شخصیات نے فساد کا راستہ اختیار کرنے کی ہی ٹھانی ہوئی ہے تو پھر یہ سوچ سسٹم اور ملک کو نقصان پہنچانے پر ہی منتج ہوگی۔