معزز قارئین! عام طور پر عظیم اُلشان شخصیات کی سالگرہ یا اُن کے وِصال پرہر قوم کے لوگ اُنہیں یاد کرتے ہیں لیکن اُن کی عظمت کی بنیاد پر اُن کی خدمات کے بارے اُنہیں یاد کِیا جاتا ہے۔
پاکپتن شریف میں، چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر، حضرت فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید گنج شکر ؒکی ولادت 589 ہجری (1175ئ) میں ہوئی اور 666 ہجر ی (1265ئ) میں آپ کا وِصال ہُوا۔
بابا فرید گنج شکر کی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ”آپ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ، سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266ء۔ 1286ئ) کے داماد تھے لیکن، آپ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ”مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری اور ”لندن باسی“ (اور بیمار ) میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن ( ر) محمد صفدر اعوان تو ، درویش نہیں ہیں؟ ۔
یوں تو مَیں سبھی صُوفیا، اولیاءشاعروں کا عقیدت مند ہُوں لیکن، بابا فرید شکر گنج اور بابا بُلھّے شاہ القادری سے میری عقیدت میں اضافہ کا "Cradit" تحریک پاکستان کے دو کارکنوں، پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور اور لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کو جاتا ہے
۔2 جنوری 1965ءکو فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ ”مفسرنظریہ¿ پاکستان“ جناب مجید نظامی نے اُنہیں”مادرِ ملّت “ کا خطاب دِیا تھا۔ مَیں سرگودھا میں ” نوائے وقت “ کا نامہ نگار تھا، جب میری اور میرے ایک سرگودھوی صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت کی مادرِ ملّت ؒسے ملاقات ہُوئی تو چودھری محمد اکرم طور اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی بھی، پھر میری اُن دونوں سے دوستی ہوگئی۔
چودھری محمد اکرم طور، (پنجابی ، اردو کے نامور شاعر اور ”نوائے وقت“ کے سینئر ادارتی رکن برادرِ عزیز سعید آسی ) کے والد صاحب تھے اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری۔ (پیمرا کے چیئرمین پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب) قیام پاکستان کے بعد، چودھری محمد اکرم طور نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا اور تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ چودھری محمد اکرم طور کی دعوت پر مَیں 1966ءمیں پاکپتن شریف گیا تو وہ مجھے بابا فرید گنج شکر کے مزار پر لے گئے۔ چودھری صاحب کو بابا جی کے بہت سے دوہے ( اشعار ) اَز بر تھے اور وہ اُن کی بہت ہی محبت سے تفسیر کرتے تھے۔
مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری مجھے 1968ءمیں بابا بُلھّے شاہ کے مزار پر حاضری کے لئے قصور لے گئے اور جب ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ”روٹی، کپڑااور مکان“ کا نعرہ عام کِیا تو بیگ صاحب اپنے سبھی دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ ”ذوالفقار علی بھٹو نے بابا بُلھّے شاہ ہی سے روشنی لے کر غریبوں کو یہ نعرہ دِیا ہے“۔ بیگ صاحب کہا کرتے تھے کہ ”بابا بُلھّے شاہ نے تو بہت پہلے ہی ہر بندے (اِنسان) کو تلقین کی تھی کہ ....
”اے بندے ! تُو اللہ سے روٹی، کپڑا اور رہائش کے لئے مکان مانگ“۔
”بابا فرید گنج شکر کے دوہے !“
معزز قارئین! فی الحال مَیں ”روٹی“ کے مسئلے پر بابا فرید گنج شکر کے صِرف 2 دوہے پیش کر رہا ہُوں۔ ایک دوہے میں آپ نے فرمایا کہ ....
فریدا! روٹی میری کاٹھ دِی، لاون میری بُھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی گھنے سہن گے دُکھ !
....O....
یعنی ” اے فرید!۔ میری روٹی ، لکڑی کی ہے اور میری بھوک ہی میرا سالن ہے اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے) کھانے والے ( اُمرائ، خاص طور پر بد عنوان لوگ ، (آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کریں گے“۔ دوسرے دوہے میں بابا جی نے اپنے حوالے سے غریب غُرباءکو مشورہ دِیا کہ ....
فریدا رُکھّی سُکھّی کھا کے ٹھنڈا پانی پی!
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی!
....O....
یعنی ” اے فرید!۔ رُوکھّی سُوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر ( زندگی بسر کر ) لیکن دوسرے لوگ جب چُپڑی روٹی کھارہے ہوں تو، اُنہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا “۔
معزز قارئین! بابا فرید گنج شکرکا دَور اچھا دَور تھا، جب عام لوگوں کو کھانے کے لئے (رُوکھّی سُوکھّی ) روٹی مل جاتی تھی اور پینے کے لئے کنویں یا چشمے کا ٹھنڈا اور صاف پانی؟ لیکن آج پاکستان میں غریبوں کے لئے اِس طرح کی نعمتیں کہاں؟۔
”کالے لِکھ نہ لیکھ!“
معزز قارئین! "Four Pillers of the State" (ریاست کے چار ستونوں) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا لیکن بابا فرید شکر گنج نے -1 پارلیمنٹ (Legislature) -2 حکومت (Executive) -3 جج صاحبان (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی کہ
فریدا! جے تُوں عقل لطیف، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
....O....
یعنی ” اے فریدا!۔ اگر تو باریک بین ، عقل رکھتا ہے تو”کالے لیکھ“ ( سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ“۔
”شکّر کِیویں وَنڈے؟“
معزز قارئین! مَیں نے کئی سال پہلے بابا فرید اُلدّین مسعود گنج شکر کی خدمت میں نظم کی صورت میں ایک مطالبہ کِیا تھا شاید آپ اس کی داد دے سکیں؟ ۔ ملاحظہ فرمائیں ....
شکّر گنج جی ! تہاڈی ملنگنی ، شکّر کِیویں وَنڈے؟
....O....
گُھور دے تاڑدے، چھیڑدے مَینوں شہر دے سبھ مشٹنڈے!
پنج دِن کڈھدی رہنی آں مَیں ہجر فراق دے ، کنڈے!
دو دِن آﺅندا ماہی میرا "Saturday" تے "Sunday"!
شکر گنج جی! تہاڈی ملنگنی شکر کِیویں وَنڈے؟
....O....
آٹا، دال، چول نئیں مِلدے، سبزی مہنگی ہُوئی!
تھوک فروشاں، حاجی بَلیکاں، کھان دِی ہر شے، لکوئی!
کِتھوں لبّھ کے لیاواں شکر جاواں کیہڑی کھنڈے!
شکر گنج جی! تہاڈی ملنگنی ، شکر کِیویں وَنڈے؟
....O....
ہڑ تے زلزلے قُدرت نے ساڈِی قسمت وِچ لِکھ دِتّے
چوراں ڈاکوآں کارن ساڈے ، پانی ہوگئے پِتّے!
دھرتی ماں دِی ، ہِک وِچّ گڈے، چاچا "Sam" نے جھنڈے!
شکر گنج جی! تہاڈی ملنگنی، شکر کِیویں وَنڈے؟
.... O ....