” زلزلہ “کے اثرات سے پنچ بھی ٹوٹنے لگا
ٹی ٹاک ....طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
دوہزار پانچ کے بعد مارچ 2023 میںایک بار پھر خوفناک زلزلہ نے جڑواں شہروں کو آلیا جس سے پنڈی اسلام آباد لرز اٹھا ۔ زمین ایک منٹ تک ہلتی رہی ۔ یوں لگا جیسے کسی بیل نے زمین کو سنگوں پر اٹھا کر گھما دیا ہو ۔زلزلے سے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا البتہ اس وقت سے سپریم کورٹ میں” زلزلہ“ کے اثرات دکھائی دے رہے ہیںبنچ بار بار ٹوٹ رہا ہے جس سے مالی و جانی نقصان تو نہیں ہو ا البتہ شہرت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ مارچ والے زلزلے میں اس روز فیملی کے ساتھ اسلام آباد کی بلند و بالا عمارت کے دوسرے فلور پر تھا ۔ہر کوئی اپنی جان بچانے سب کچھ چھوڑ کر باہر بھاگ رہا تھا۔ ایسے میں نیک دل لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ۔ بزرگوں کو غیروں نے کندھے پر اٹھاتے دیکھا ۔ زلزلہ کی شدت چھ اعشاریہ پانچ سے زیادہ تھی ۔ دیکھا جائے تو یہ قدرتی آفات انسانوں کو یاد دہانی کرانے آتی ہیں کہ اے انسان یہ دنیا عارضی ہے ،یہاں دل نہ لگا ۔ میں ایک منٹ میں بے گھر کر سکتا ہوں۔ ہم میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو دل سے یقین نہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے ۔وقتی طور پر اﷲ کا ورد کرتے ہیں مگر اﷲ سے ڈرتے نہیں ۔ ان میں شمار ایسے لوگوں کا ہے جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں ۔یہ بھی ہر وہ کام کر تے ہیں جس سے دوسروں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں اور یہ چار پیسے بنا لیتے ہیں ۔ دنیا والے سائنس میںترقی اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوں جبکہ ہم سائنس سے فائدہ اٹھا کر دودھ جعلی طریقے سے بناتے ہیں ۔ بھینس کو دودھ زیادہ لینے کےلئے ٹیکے لگاتے ہیں ۔ اس لئے کہ دولت میں اضافہ ہو ۔ڈاکٹر بن کر گردوں کا کاروبار کرتے ہیں ۔عام آدمی ملاوٹ کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے ۔بڑے عہدوں کے حامل حلف اٹھا کر پاسداری نہیں کرتے ۔سیاست دان جھوٹ بولتے ہیں قوم کو سرسبز باغ دکھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کر کے عمرہ اور حج کر آتے ہیں سمجھتے ہیں کہ جو کچھ گناہ کئے تھے وہ ایسا کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں ۔پڑھے لکھے اور ان پڑھ سبھی ایک صف میں کھٹرے ہیں ۔واردات البتہ ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے ۔اس میں سب بلکہ علما سبھی شامل ہیں ۔یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ نہ خدا سے ڈرتے ہیں اور ملکی آئین اور قانون سے ۔ کوئی بھی اپنے کئے پر شرمندہ نہیں ہوتا ۔شائد اس لئے کہ ہم دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں غلطیوں پر شرمندہ ہونا لکھا نہیں ہے ۔جہاں ایک عمرہ کرنے سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔دنیا میں اس وقت ہماری عدلیہ کا126 نمبر ہے مگر کیا مجال کہ اس کی بہتری پر کسی نے سوچا ہو یا اس کی بہتری کےلئے کام کیا ہو ۔ اب تو عالی عدلیہ کے اندر کے اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ ماضی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے تبصرے ہر کوئی کر رہا ہے ، گروپ بندی دکھائی دے رہی ہے ۔ہر فیصلے سے پہلے بنچ کو دیکھ کر عام بندہ بھی بتا دیتا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا ؟ الیکشن بحران میں عدلیہ نے سو مو ٹو لیا۔ حکومت شور کرتی رہی کہ اس کےلئے لاجر بنچ بنایا جائے مگر ایسا نہ ہوا ۔نو رکنی بنچ ٹوٹ گیا اور پانچ رکنی بنچ نے جلدی سے فیصلہ سنا دیا جس کے نتائج حکومت نے اور الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کئے ۔ الیکشن کمیشن نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ دیا کہ پورے ملک میں الیکشن ایک ساتھ آٹھ اکتوبر میں کرائے جائیں گے ۔الیکشن نہ کرانے کی وجوہ بھی بتائیں لیکن میں نہ مانو کی رٹ لگانے والوں نے ایک بار پھر عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ اب عدلیہ کا دروازہ کھل چکا ہے ۔اب گیند عدلیہ کے کورٹ میں ہے جس کو کھیلنے کےلئے پندرہ رکنی ٹیم کو دفاع کرنا چاہیے تھا تو نتائج سب مان لیتے ۔ مگر ایک بار پھر پانچ کا بنچ بنا اور پھر ٹوٹ گیا ۔نیا بنچ بنے گا ۔ اب بھی اٹارنی جنرل اور دوسری جماعتوں کے نمائدوں نے لاجر بنچ کی درخواست کر رکھی ہے مگر ان کی یہ درخواست بے سود دکھائی دے رہی ہے ۔ دوسری طرف حکومت نے یہ ضروری سمجھا کہ سپریم کورٹ کے رولز میں تبدیلی کی جائے تانکہ سو موٹو میں ون مین شو کا خاتم ہو ۔ قانون کے پاس ہو جانے سے سو موٹو کے کیسوں میں اپیل کی جاسکے گی۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا جس کا نقصان سیاست دانوںاور عام شہریوں کو ہوا ۔ماضی میں ہماری عدلیہ زوال پذیر رہی ہے ۔اس کے قصور وار ہمارے ماضی کے چیف جسٹس صاحبان ہیں ۔ جھنوں نے قانون کے مطابق فیصلے نہیں لکھے تھے ۔خود تو یہ لکھ کر چلے گئے لیکن ان کے فیصلے ان کی یاد دلاتے رہتے ہیں ۔ اس نئے قانون کی وجہ سے تیس دن کے اندر اپیل کی جا سکے گی ۔ وفاقی حکومت نے وکلا پروٹیکشن ایکٹ 2023منظور کر چکا ہے جس سے وکلا کو حقوق مل گئے ہیں جن کی خواہش وکلا رکھتے تھے ۔ جس پر پی ڈی اے اور اعظم نذیر تارڑ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جہاں حکومت نے سپریم کورٹ کے رولز پر کام کر دکھایا وہی انہیں چاہیے تھا کہ ججز کی سلیکشن پر بھی بل پاس کرا لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ابھی تک انگلیاں ججز پر اٹھ رہیں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سلیکشن کے طریقے کار سے کوئی خوش نہیں ۔ تمام ججز کی سلیکشن سے پہلے اور سلیکشن کے ہر سال ان کی جسمانی اور نفسیاتی چیک اپ کم از کم پانچ رکنی سینئر ڈاکٹروں سے کرایا جانا ضروری ہے ۔ ان کے ہر سال اثاثے اور بنک کی تفصیل شو کی جایا کرے کہ کیا تھے اور اب کیا ہیں ۔ جتنی باریکی سے ججز کی سلیکشن ہو گی اتنے ہی اچھے فیصلے عوام کو دیکھنے کو ملے گے ۔ خرابیاں ہر ادارے ہر جگہ ہر انسان میں پائی جاتی ہیں اگر یہ خامیاں کم ہوں تو نظر اندازرہتی ہیں لیکن وہ خامیاں جو آپ کو بغیر چشمہ لگائے کے نظر آنے لگیں ان کو برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو جاتا ہے ۔ہر پانچ سال کے بعد پر سیاست دان جب ممبر اسمبلی کےلئے الیکشن کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتریں تو لازم قرار دیا جائے کہ ان کے جسمانی و نفسیاتی ٹیسٹ پاس کرانا ہونگے ۔ ملک میں ڈرگ عام ہے لہذا ان کے ڈوپ ٹیسٹ بھی کرائے جائیں تو آپس کے لڑائی جھگڑوں گالم گلوچ اور الزامات سے بچا جا سکتا ہے ۔ایسے بہت سے بل اسمبلی سے پاس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ضرورت یہ بھی ہے سپریم کورٹ کے بنچ بار بار ٹوٹنے پر سوچ بچار کی جائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ تو طے ہے کہ ججز میں اہم آہنگی نہیں ہے ، ان حالات میں اگر لاجر بنچ بنا دیتے تو بنچ بار بار نہ ٹوٹتا ۔ اگر چیف جسٹس صاحب بنچ بنانے سے پہلے تمام ججز سے صائب مشورہ کر لیتے تو ایسے نہ ہوتا ۔بحرحال جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہے ۔ ادارے پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔اﷲ ہم پہ رحم فرما ئے!