فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
ملک عزیز کی تاریخ میں ۲۳ مارچ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اس دن کو یوم پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔اس دن شہر لاہور میں منعقدہ ایک بڑے جلسہ میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی۔یوں اسلامیان ہند نے اس قراداد کی بنیاد پرجدا گانہ ریاست کے حصول کے لیے قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میںایک منظم تحریک شروع کی ۔اللہ رب العزت کا فضل شامل حال ہوا اور دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ایک عظیم الشان مملکت معرض وجود میں آئی۔لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد یہ ملک بنا حقیقت یہ ہے کہ
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
یہ دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ روزنامہ نوائے وقت کا آغاز بھی اسی بابرکت دن کو ہوا۔جناب حمید نظامی رحمتہ اللہ علیہ کی ادارت میں شائع ہونے والے اس اخبار نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ۔نوائے وقت چونکہ تحریک پاکستان کا ترجمان تھا اس لیے برصغیر کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا ۔اس دور کے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کر نے میں نوائے وقت کا بڑا حصہ ہے۔ قیام پاکستان کی تاریخ اور نوائے کی تاریخ کا آغاز ایک ساتھ ہوا ۔نوائے وقت صحیح معنوں میں ایک عوامی اخبار رہا ۔ کیونکہ اس نے اردو زبان و ادب کو فروغ دیا، عوام کی بات کی،ان کے حقوق کا دفاع کیا،جذبہ حب الوطنی کو بیدار کیا، نظریہ پاکستان کی حفاظت کی ، ملک دشمن عناصر کو للکارا، اندرونی اور بیرونی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق ادا کر دیا۔آج بھی روزنامہ نوائے وقت محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور موجودہ سیاسی ، معاشی اور سماجی صورت حال میں اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔قوم کی طرف سے روزنامہ نوائے وقت کی انتظامیہ ،اہل قلم اور کارکنان کو روزنامہ نوائے وقت کی۸۴ ویں سالگرہ مبارک ہو۔اہل وطن دعا گو بھی ہیں کہ پاکستان قائم و دائم رہے اور روزنامہ نوائے وقت نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرتا رہے۔
کمال جذبہ تھا ، یک جہتی تھی ،بے مثال قیادت تھی اور منظم تحریک تھی کہ صرف سات سال میں مملکت خدادا معرض وجود میں آ گئی۔ کوئی ملے تو پوچھیںکہ یہ سب کہاںکھو گیا۔قا فلہ منزل کی طرف رواں ہوا ہی تھا کہ قیادت سے محروم ہو گیااور ایسا بھٹکا کہ ۸۴ سال سے سفر میں ہے لیکن منزل کا نام و نشاں تک نظر نہیں ٓ رہا۔ہر دور حکومت میں یہی بتایا جاتا ہے کہ قوم نازک موڑ سے گزر رہی ہے ۔خدا غارت کرے اس نازک موڑ کو کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا۔کشتی ایسے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے کہ کنارے لگنے کے کوئی آثار نہیں۔قحطالرجال ایسا کہ دور دور تک نظر دوڑائیں قیادت کا فقدان ہی نظر آرہا ہے۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیاںسے کام چل رہا ہے
منزل کا پتا ہے نہ کسی راہ گزر کا
بس ایک تھکن ہے جو حاصل ہے سفر کا
اب پروردگار عالم اور قادر و قدیر کی بارگاہ میںصرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ کوئی ایسا رہنما مل جائے جواس بھٹکے ہوئے قافلے کو منزل تک لے جانے کا سبب بن جائے۔بقول شاعر
چنے تھے جس قدر گلاب،خار خار ہو گئے
بنے گئے تھے جتنے خواب،تار تار ہوگئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں،عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو،مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
یوم پاکستان منانا بھی اب ایک رسم بن گیا ہے۔اس دن دو بڑے پروگرام ہی ہوتے ہیں۔صبح کے وقت دارالحکومت میں پریڈ ہوتی ہے اورشام کے وقت سینکڑوں کے حساب سے تمغے ’’بانٹے ‘‘جاتے ہیں ۔پریڈ کے مناظر بڑے روح پرور ہوتے ہیں۔ملک عزیز کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر خوف طاری ہوتا ہے اور محب وطن عناصر باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ تمغات حسن کارکردگی کا معاملہ سمجھ سے باہر ہے۔مملکت خداد داد کا ہر شعبہ تو زوال کا شکار ہے تو تمغہ حسن کار کردگی کس بات پر۔معیشت تباہ ہو چکی ۔ستر فیصد آبادی کے چولھے ٹھنڈے ہونے کے قریب ہیں۔بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا مشکل ہوگیا۔منگائی مریخ سے آگے نکل گئی۔ صحت کا شعبہ برباد ہوگیالوگ قابل علاج امراض سے بھی راہی عدم ہو رہے ہیں۔شعبہ تعلیم کا بیڑا غرق ہو گیااور فنون لطیفہ کا جنازہ اٹھ گیا۔جامعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔کاپی پیسٹ کا سلسلہ زورو شور سے جاری ہے ۔سائینس اور ٹیکنالوجی کے شعبے بانجھ ہو گئے ۔اس عالم ایجاد میںآج تک کوئی صاحب ایجاد پیدا نہ ہ سکاجس کا زمانہ طواف کرے ۔ایسی افسوس ناک صورت حال میں وہ کون سی ہستیاں ہیں جو ایوارڈز کی مستحق ہوں۔ ہر سال کئی ایواردز تو ایسے حضرات کو دیے گئے کہ وہ خود بھی ابھی تک سکتے میں ہیں۔جب دفتروں میں بیٹھ کر فہرستیں بنیں گی،اقرباء پروری ہو گی تو یہی کچھ ہوگا۔سچی بات تو یہی ہے کہ ا یوارڈز کے صحیح حقدار وہ ہستیاں ہیں جو بغیر کسی لالچ اور طمع کے اپنا تن ،من اور دھن قربان کر رہی ہیں۔دور افتادہ علاقوں میں جہالت کے خلاف محاذآراء ہیں، عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی سہولتیں دے رہے ہیں،بینائی لوٹا رہے ہیں، روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں،راشن تقسیم کر رہے ہیںاور غیر ممالک سے فنڈز لا کر وہ منصوبے چلا رہے ہیں جو بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ دار ی ہیں۔ اگرچہ یہ ہستیاں کسی ایوارڈ کے لیے کام نہیں کر رہیںصرف اللہ کی رضا ان کا مقصد ہے لیکن ان کو تمغہ دے کر تمغے کی توقیر میں اضافہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔