پاکستان کے شمالی علاقہ جات جسکا موجودہ نام گلگت و بلتستان ہے پاکستان کے وہ خوبصورت علاقے ہیں جنہیں بجا طور پر جنت ارضی کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے اس علاقے کو فطرتی حسن سے اس فراخدلی سے نوازا ہے کہ میدانوں سے جانے والے لوگ سحر زدہ حسن سے باہر ہی نہیں آسکتے۔ بے ذوق انسان بھی وہاں جا کر فطرت کی عطا کردہ رنگینی میں تحلیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں کی ہر چیز کا اپنا ہی حسن ہے ۔ پہاڑوں کا۔ برفانی چوٹیوں کا۔ برفانی تودوں کا۔ حسین وادیوں کا۔ بپھرے ہوئے دریاؤں کا ۔ نیلگوں اور سبز جھیلوں کا۔ پھلدار اور غیر پھلدار درختوں کا، پھولوںکا، کھیتوں کا، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کا بھی جو سب ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ جب یہ سب ملکر ایک ہی پس منظر میں جذب ہوتے ہیں تو فطرتی حسن کا ایک ایسا رنگ ابھرتا ہے جو ہمارے جیسے لوگوں کو مبہوت و مخمور کر دیتا ہے۔
اس علاقے کے حسن کی وجہ وہاں کی برفانی چوٹیاں ہیں۔ دنیا کی چند بڑی چوٹیاں اِسی علاقے میں واقع ہیں جن پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ اِسی برف کی وجہ سے ٹھنڈے اور چمکدار پانی کی ندیاں جنم لیتی ہیں۔ تاحدِنگاہ خوبصورت پھول اُگتے ہیں جو علاقے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن اس علاقے کی اصل اہمیت اس کے بڑے بڑے گلیشئیرز ہیں۔ سیا چن گلیشیئر بھی انہی میں سے ایک ہے اوریہ کئی میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اِسی گلیشئیر کی وجہ سے پورے علاقے کو سیاچن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گلیشئیر اِس علاقے کی زندگی کا اہم جزو ہے۔ اِسی گلیشئیر ہی کے دم سے اِس علاقے کے لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
سیاہ چن گلیشئیر شمالی علاقہ جات ضلع سکردو میں واقع ہے۔ 48-1947 میں جب مجاہدین نے یہ علاقہ آزاد کرا یا تو شمالی علاقہ جات میں واقع ہونے کی وجہ سے سیاچن گلیشئیر اور اردگرد کے تمام ایریازاس علاقے کے حصے قرار دئیے گئے جسے بھارت نے بھی قبول کیا۔ 27 جولائی 1949 کو کراچی میں تکمیل پائے جانے والے پاک بھارت معاہدے کی رو سے بھی یہ علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ 1963ء میں پاک چین معاہد ہ 1966 میں تاشقند معاہد ہ اور 1972ء میں شملہ معاہد ہ ہوا اور ان تمام معاہدوں میں یہ گلیشئیر ہمارے شمالی علاقہ جات کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ 1947 سے 1984 تک جتنی بھی غیر ملکی کو ہ پیما مہمات اس علاقے میں آئیں سب پاکستان کی اجازت سے وہاں گئیں۔ یہ علاقہ چونکہ بہت زیادہ بلندی پر واقع ہے۔ اس پر حق بھی شروع ہی سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا رہا ہے۔ اس پر کبھی کسی قسم کے حق ملکیت کا تنازعہ بھی کھڑا نہیں ہوا اس لئے اس علاقے میں کسی قسم کی جنگ بندی کی لائن یاسرحدی نشانات بھی نہ لگائے گئے۔ یہاں کسی قسم کی آبادی تو تھی نہیں نہ ہی کوئی فوجی کیمپ ممکن تھا۔ اس لئے یہ علاقہ انسانوں سے خالی رہا۔ لے دے کر کبھی کبھی کوئی کوہ پیما ٹیم ادھر جانکلتی لیکن وہ بھی شاذ ونادر۔
1978ء میں بھارت کےHigh Altitude & Snow Warfareسکول کے کمانڈنگ آفیسر اس علاقے میں ایک تربیتی ٹیم لے گیا۔ دراصل 1962 کی جنگ میں بھارت نے چین سے بری طرح مار کھائی تھی کیونکہ یہ جنگ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں پر لڑی گئی جو بھارتی فوجیوں کے بس میں ہی نہ تھی۔ بھارت نے اس جنگ سے سبق سیکھا اور اپنے لئے پہاڑی ڈویژن تیار کئے۔ برفانی علاقے میں جنگ کیلئے خصوصی طور پر گلمرگ کشمیر میں تربیتی سکول کھولا۔ 1978 میں تربیتی ٹیم کے بعد یہ کمانڈنگ آفیسر کوہ پیما اور ریکی کی ٹیمیں اس علاقے میں لے گیا۔ میدان خالی ملا تو اس کے بعد علاقے میں تربیتی اور کوہ پیما ٹیمیں مسلسل جانے لگیں۔ پاکستان کی طرف سے کسی قسمکی رکاوٹ پیش نہ آئی اورنہ ہی کوئی اعتراض اُٹھا۔ بھارت نے علاقے میں پاکستان کی عدم موجودگی اور عدم دلچسپی دیکھ کر اُسنے یہ نادر موقعہ سمجھا اوراس علاقے پر قبضہ کی منصوبہ بندی کی۔کسی قسم کی حد بندی اور سرحدی نشانات نہ ہونے کی وجہ سے وہ جہاں تک علاقے پر قابض ہو سکتے تھے اُسے اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ 13اپریل 1984ء کو بھارتی فوج نے اس علاقے پر عملی قبضے کیلئے آپریشن ’’مغدوٹ‘‘ کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا۔ مغدوٹ ہندو عقیدے کیمطابق بلندی پر رہائش پذیر اور بلند ہواؤں میں اڑنے کی صلاحیت رکھنے والی کسی دیوی یا دیوتا کا نام ہے۔ اس قبضے سے سیاچن کی چوٹی پر پہنچنے والے تین بڑے راستوں میں سے دو بڑے راستے بھارت کے قبضے میں آگئے۔ شاید وہ مزید آگے بڑھتے لیکن اس عرصے میں پاکستان کو پتہ چلا تو پاکستان نے بھی کسی نہ کسی طرح اپنی فوج چوٹی پر پہنچا دی اور یوں اسکی ایک تہائی بھارتی قبضہ میں جانے سے بچ گئی۔ اس وقت سے لیکر آج تک دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل حالت جنگ میں پھیلی ہیں اور جب بھی کسی فریق کو موقع ملتا ہے تو ایک دوسرے کی چوٹیوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔
معلوم نہیں بھارت ان برفانی چوٹیوں سے کیا حاصل کرنا چاہتاہے کہ پورا ڈویژن فوج اس برف میں مقیم کر رکھی ہے ۔ یہاں رہنے والے جوانوں کے لئے زندگی کسی جہنم سے کم نہیں۔ وہاں کوئی ایک آدھ تکلیف ہو تو بات بھی کی جائے ۔ وہاں تو مصائب ہی مصائب ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ تو آنکوں کی حفاظت کا ہے۔ وہاں معمولی سی بے احتیاطی سے آنکھوں کی بینائی ضائع ہونے کا خدشہ رہتاہے۔پھر انسان سارا سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ اِسی لئے اس علاقے میں رکھی جانے والی فوج میں خودکشیوں کی تعداد بے قابو ہو چکی ہے۔ بہت سے جوان ذہنی طور پر بُرے طریقے سے متاثر ہوئے ہیں جنہیں ایک لمبے عرصے تک اپنا علاج کرانا پڑا ہے۔ ان سب بیماریوں کے باوجود بھارت کی سیاچن پر قابض رہنے کی ضد اپنی جگہ قائم ہے۔ پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت کسی معقول حد بندی پر راضی نہیںہوتا۔ بھارتی ضد کے پیشِ نظر پاکستان بھی وہاں اپنی فوج رکھنے پر مجبور ہے۔ مندرجہ بالا ساری تکلیفات ہمارے جوان بھی برداشت کر رہے ہیں لیکن خد اکے فضل و کرم سے اس طرف تا حال خودکشیوں اور ذہنی بیماریوں کی نوبت نہیں آئی اور نہ انشاء اللہ آئے گی۔پاکستان مسئلے کے حل کے لئے متواتر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کی ضد اپنی جگہ لیکن بالآخر اُسے یہ مسئلہ حل کرنا ہی ہوگا۔دنیا کی اس مہنگی ترین اور بے مقصد جنگ کا فائدہ دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی نہیں۔