امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے ایک راز کی بات یوں بتائی۔ ان کی کے پی کے‘ کے وزیر خزانہ کے طور پر کامیابی ان کی بی اے میں اکنامکس کے اختیاری مضمون پڑھنے کے باعث تھی۔ ہماری کمزور معیشت کے باعث ان کا بی اے میں پڑھی اکنامکس سے ہی گزارہ ہو گیاورنہ ہندوستان کے من موہن سنگھ اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈبل ڈگریاں بھی ناکافی سمجھتے تھے۔ یہ ڈگریاں وہ آکسفورڈ سے لیکر لوٹے تھے۔ کالم نگار نے بی اے چھوڑ ایف اے اورمیٹرک میں بھی اکنامکس کا مضمون نہیں پڑھا۔ سو اسے محمد احسن رانا کی کتاب ’’ھیں کواکب کچھ‘‘پہلے پڑھنے اور پھر سمجھنے میں خاصی دقت محسوس ہوئی۔ اس کتاب میں سرمایہ دارانہ فلاحی نظام کے مفروضوں کا سارا کچا چٹھا اور تمام ظاہری اور پوشیدہ حقائق پوری تفصیل سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کے مصنف گھاٹے کا سودا کرنے والے ایک عشق پیشہ راجپوت ہیں۔ گھاٹے کا سودا اس لئے کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کا خواب سپیرئیرسول سروس کا ڈی ایم جی گروپ چھوڑ کر لمز یونیورسٹی میں درس و تدریس کاپیشہ اختیار کئے بیٹھے ہیں۔ کیوں؟ اس سوال کا مکمل جواب ان کی یہی کتاب ہے۔ علامہ اقبال کے مطابق، مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج، اس کتاب میں سرمایہ دارانہ معاشروں میں موجود نام نہاد فلاحی نظام کو اسی خراج کی دوسری شکل ثابت کیا گیاہے۔ وہ محروم طبقات سے بالواسطہ ٹیکس کی صورت میں خراج وصول کرنے والی اشرافیہ کو گداگرکی بجائے لٹیرے قرار دیتے ہیں۔
اس تحقیقی کتاب کی اشاعت پاکستان کی سیاسی سماجی اور اقتصادی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے۔ پہلا واقعہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ’’ملٹری ان کارپوریٹڈ‘‘تھا۔ اگرچہ اس میں پوری ریاست کی بجائے اس کے صرف ایک ادارے کی غیر پیشہ ورانہ کارکردگی ہی ڈسکس کی گئی ہے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں تھی۔ برسوں بعد اسے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ احسن رانا نے اپنی ’’جسارت‘‘سیدھی اردومیں کی ہے۔ ادھراردو اخبارات کی نسبت انگریزی اخبارات کا ذائقہ بہت مختلف ہوتا ہے۔ انگریزی صحافت میں وہ بہت کچھ برداشت کر لیا جاتا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اردو قارئین سے اوجھل رکھنا چاہتی ہے۔
احسن رانا لکھتے ہیں کہ غریبوں کی مالی امداد جیسے اقدامات سے سرمایہ دارانہ نظام کو جواز مہیا کیا جاتا ہے۔ وہ ریاست جو ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کیلئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی قدم بوسی کے لئے تیار ہے، ہر سال اس سے زیادہ رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے مختص کر دیتی ہے بلکہ اس میں اضافہ پر بھی رضامند رہتی ہے۔
احسن رانا اپنا اصلاحی سفر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خاں نے دیگر جاگیرداروں سے مل کر جاگیریں بچانے کا سفر شروع کیا تھا۔ انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت شریعت اسی مقصد کیلئے بنائی گئی تھی۔
اورغیر حاضرزمیندار ہاری کا روپ دھار گئے۔ مولانا حسرت موہانی قرارداد مقاصد کی یہی نیت بھانپ کر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ لاھور الحمرا میں یوم اقبال کے جلسہ میں دانشور ملک فتح محمد کہنے لگے۔ کتنی مزے کی بات ہے کہ جاگیرداری کے مسئلہ پر مولانا مودودی اور مرزا غلام احمد ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ اپنی تقریر میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اس بات کا برا مناتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ اس بات کی تردید نہ کر سکے کہ دونوں اس مسئلہ پر ہم رائے تھے۔ مولانا سراج الحق کو جن دنوں بھٹو بننے کا شوق چرایا کرتا تھا وہ بھی جاگیرداری کے خلاف نعرہ مستانہ لگایا کرتے۔ انہی دنوں کالم نگار نے اپنے کالم میں مولانا سراج الحق سے عرض کی کہ حضور! اگر آپ واقعی جاگیرداری کے خلاف ہیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جناب عابد حسن منٹو کی جاگیرداری کے خلاف رٹ میں ان کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوجاتے؟ کالم نگار یاسر پیرزادہ کا ٹیلی فونک میسیج آیا کہ مولانا سراج الحق عابد منٹو کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہونگے۔ پھر مولانا نے عابد منٹو کی رٹ میں فریق مقدمہ بننے کی بجائے جاگیرداری کا موضوع ہی چھوڑ دیا۔
محمد احسن رانا اپنی کتاب ’’ہیں کواکب کچھ‘‘ میں بلا امتیاز ایک خاندان کی حد ملکیت صرف 25ایکڑ تجویز کرتے ہیں۔ باقی تمام زمین بلا معاوضہ بحق سرکار ضبط کرتے ہیں۔ رہائش کے لئے ایک خاندان کے لئے ایک کنال زمین مختص کرتے ہیں۔ باقی رہائشی جگہ پر یوں ٹیکس لگاتے ہیں جیسے وہ کرایہ پر چڑھی ہوئی ہو۔ ایک تلخ سچائی رہائشی پلاٹوں کے بارے میں انہی کے لفظوں میں: ’’ان پلاٹوں کی حد تک ان پر حق ملکیت رکھنے کا منشاء انہیں استعمال کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو ان کے استعمال سے روکنا ہے۔ حکومت جب اپنے ادارہ ہائے جبر کے ذریعے اس حق ملکیت کا تحفظ کرتی ہے تو وہ مالکان کے اپنی ملکیت کے رہائشی یا پیداواری استعمال کا حق نہیں بلکہ ان کے عدم استعمال کے حق کا تحفظ کرتی ہے‘‘۔ وہ خالی پلاٹوں کی حوصلہ شکنی کیلئے بھاری ٹیکس لگانے کی تجویز دیتے ہیں۔ ان کی کتاب میں اوربہت سی تجاویز ہیں ایک سچی اسلامی ریاست بنانے کی۔ حق انصاف سلامتی پر مبنی ریاست ہی ایک اسلامی ریاست ہوتی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں دنیا کی ایک تہائی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ رازق کی طرف سے اپنی مخلوق کے لئے بھجوایا ہوا ایک ارب کا کھانا ہر روز ضائع کیا جا رہا ہے۔
مختار مسعود اپنی کتاب ’’لوح ایام‘‘میں ایرانی انقلاب بیان کرتے ہیں۔’’عوامی فوج کا یہ موٹر سوار دستہ تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اسلحہ زیادہ سے زیادہ 2ہزار افراد کے پاس ہوگا۔ وہ چھوٹے غیر رسمی ہتھیار جو صرف ایک باراستعمال کے بعد ناکارہ ہو جائیں گے اور جس پر وار کیا جائے اس کا شاید کچھ بگاڑ بھی نہ سکیں، کوئی ہزار پانچ سو نوجوانوں نے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ باقی ماندہ عوامی فوج صرف غم و غصہ سے لیس ہے۔ ہمارے پاس دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ ہم کچھ زیادہ ہی نہتے ہیں‘‘۔ اللہ مختار مسعود کی قبرنور سے بھرے۔ وہ اللہ کے حضور جا چکے ہیں۔ ورنہ انکے ہاں لاہور شادمان حاضر ہو کرضرور عرض کرتا۔ حضور! بے شک ہم اپنی سول بالا دستی کی جدو جہد میں اسلحہ سے لیس نہیں،ہمیں اسلحہ چاہئے بھی نہیں، محمد احسن رانا جیسے انقلابی رائیٹروں نے اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ہمیں یہی کافی و شافی ہے۔ رہا ایرانیوں کا سا غم وغصہ، پاکستانی عوام نے حالیہ الیکشن میں ایرانیوں سے کم غم و غصے کا اظہار نہیں کیا۔سو اب ہم زیادہ نہتے نہیں رہے۔