پاکستان سے محبت کرنے والے سنجیدہ طبقات میں یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار اور اخلاقیات مسلسل بگاڑ اور تنزلی کا شکار ہیں۔ معاشرت کے آئینے میں ہماری اقدار اور اخلاقیات کی تصویر دھندلی دِکھائی دے رہی ہے۔ اخلاقی سطح پر معاشرہ زوال پذیر دکھائی دے رہا ہیاور تاحال کوئی ایسی موثر کوشش ہوتی دِکھائی بھی نہیں دے رہی کہ اِس بڑھتے ہوئے زوال کی مناسب روک تھام کی جاسکے۔ اقدارکو قوم اور معاشرے کے سطح پر پرکھا جاتا ہے جب کہ اخلاقیات کو معاشرے کے علاوہ فرد کی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں سب سے بنیادی اکائی فرد ہے اور یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ فرد کی تربیت اور آگاہی کا میعار کیا ہے۔ اقدار در حقیقت کچھ بڑے زریں اْصول ہوتے ہیں جو قومیں اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے طے کرتی ہیں اور ان کو اپنا زاد راہ تصور کرتی ہیں۔ اخلاقیات انفرادی اور سماجی ہوتی ہے جو تسلسل سے روزمرہ زندگی کے اْصولوں کی صورت نظر آتی ہے اور یہ اْصول ہر معاشرہ اپنے معروضی حالات کے مطابق طے کرتا ہے۔کسی بھی معاشرے میں اقدار کا ماخذ اور ارتقاء ثقافت، سماج، مذہب، تعلیم اور انفرادی تجربات کی بدولت ہوتا ہے۔
تاریخی طور پر، معاشرے میں روایتی اقدار ہوتی ہیں جن کی جڑیں رسم و رواج سے جڑی ہوتی ہیں جو کئی نسلوں کی مشق سے گزرتی ہوئی پختگی کی سطح پر پہنچتی ہیں۔یعنی اگر کوئی قوم مزاج کی جنگجو یا مہمان نواز ہے تو یہ قدرایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی چلی جائے گی۔ اقدار اپنے تسلسل کے لیے اپنی طاقت روایت سے کشید کرتی ہیں اِسی لیے جدیدیت اْن اقدار کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے جو تاریخی طور پر روایت سے جڑی ہوں اور جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔ اقدار جامد نہیں ہوتیں اور نہ ہی اقدار کو جامد ہونا چاہیے۔ افراد اور معاشروں کا نئے تجربات اور چیلنجز کی روشنی میں اقدار کا مسلسل جائزہ لینا بھی اشد ضروری ہے۔
اخلاقیات معاشی ، سماجی اور معاشرتی طور پر نمو پاتی ہیں اور لوگوں کیعمومی طرز ِعمل اور رویوں کو تشکیل دیتی ہیں اور لوگوں کا معاشرے میں ردِ عمل اْن پر مثبت اور منفی عناصر کے اثر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر معاشرے میں نسلی منافرت ، معاشی اور سماجی ناانصافی ، دھوکہ دہی اور بے راہ روی جیسے مسائل نیمعاشرے کی عمومی اخلاقیات کو زک پہنچائی ہے اور لوگ خاص منفی رویہ اپنائے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔ اخلاقیات کی تنزلی کی وجہ سے درحقیقت مجموعی طور پر معاشرہ انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسی صورتِ حال میں پریشان کْن امر یہ ہے کہ لوگ اخلاقی انحطاط سے پریشان بھی نہ ہو رہے ہوں اور معاشرہ اِ س گراوٹ کو سنجیدہ بھی نہ لے رہا ہو۔ معاشرے میں رہنے والے افراد اِس صورت ِ حال کو ایک نیا معمول تصور کرنا شروع کر دیں جیسا کہ مغرب میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اخلاقی تنزلی گراوٹ نہیں ہے بلکہ نئی اخلاقیات کا جنم ہے۔لیکن پاکستانی معاشرے کے تناظر میں ایک بات تو بہرحال طے کرنی ہوگی کی نئی اخلاقیات کا دائرہ کار کیا ہو۔ نئی اخلاقیات کی بھی آخر ہوئی اخلاقیات طے کرنا پڑے گی۔
اقدار کے حوالے سے امریکی اقدار کا بہت پرچار کیا جاتا ہے۔ امریکی امریکن ویلیوز کو نہ صرف بہت فخرسے بیان کرتے ہیں بلکہ وہ امریکی اقدار کو امریکی طرزِ زندگی سمجھتے ہیں اور اْن کا عالمی سطح پر پھیلانا بھی اپنا فرض گردانتے ہیں۔امریکی پالیسی ساز یہ تصور کرتے ہیں کہ جمہوریت ، آزادی اور اِنسانی حقوق جیسی اقدار کا پرچار کرکے وہ عالمی اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں کیونکہ یہی بڑی قدریں ہیں جن کا رائج ہونا دْنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اگرچہ کچھ ناقدین کی امریکی اقدار کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ ثقافتی سامراج ہے جس کا سہارا لے کر امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ بہرحال اِ ن اقدار کی بدولت امریکہ کو اپنا سوفٹ امیج برقرار رکھنے میں کافی حد تک مدد ملتی ہے۔ امریکی اقدار میں انفرادی آزادی، خود مختاری، خود انحصاری، مساوات ، قانون کی حکمرانی ،شخصی اور سیاسی آزادی اور جمہوریت جیسی اقدار شامل ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں اتحاد، ایمان، نظم و ضبط جیسی اقدار قائد کے فرمودات سے لی گئی ہیں جن سے نہ صرف قومی ہم آہنگی کی اہمیت واضح ہوتی ہے بلکہ نسل ، زبان اور ثقافت کے فرق سے بھی مبرا دِکھائی دیتی ہیں۔ یہ اقدار ہماری روایات اور طرز زندگی سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ آزادی، تنوع اور مہمان نوازی جیسی اقدار بھی سماج اور معاشرت میں گہری پیوست ہیں۔ متنوع ثقافتیں، زبانیں اور روایات پاکستان کا حسن ہیں۔
پاکستان میں اقدارو اخلاقیات زوال پذیرہیں۔ بد قسمتی سے گذشتہ چند برسوں میں مادہ پرستی، اخلاقی پستی ، سماجی نظام کی توڑ پھوڑ ، بے تحاشا بدعنوانی ، لا قانونیت ، غربت ، معیاری بنیادی تعلیم، بے روزگاری ، سیاسی اور معاشی عدم استحکام ، کمزور عدالتی نظام ، مذہبی تعصب اور معاشی ناانصافی جیسے مسائل نے معاشرے کو دیمک زدہ کر دیا ہے۔ یہ ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل درکار ہے جس میں تعلیم اور معاشرتی اور سماجی سطح پر آگاہی بہت اہم ہیں اور تمام شہریوں کو باور کروایا جائے کہ وہ سماجی اور معاشرتی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے نہایت اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔ معاشرے کیتمام طبقات اخلاقی رویوں کو فروغ دینے اور مثبت اقدار کے تحفظ کے لیے معاون ہوسکتے ہیں اِس لیے اْن کو اس ضمن میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔اِس زوال کی روک تھام کیسے کی جائے؟ نوجوان چونکہ ہماری ابادی کا 60 فیصد ہیں اس لیے سب سے پہلا فوکس نوجوان نسل کو ہونا چاہیے۔ ایک جامع پروگرام کے تحت نوجوان نسل میں اتفاق و اتحاد، مثبت طرز عمل ، اعتماد، اور نظم و ضبط جیسے اوصاف کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو بنیادی اقدارمساوات، آزادی، انصاف، اتحاد، اور ترقی کے بارے میں مکمل آگاہی دی جانی چاہیئے۔ قومی اقدار کے تحفظ اور مضبوطی کے لیے ایک سات نکاتی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
1)ایک ایسا تعلیمی نصاب نافذ کیا جائے جو قومی شناخت، تاریخ اور اقدار کو اور تنقیدی سوچ، رواداری، اور تنوع کے احترام کو فروغ دے۔
2)پاکستانی فنون، ادب اور ثقافتی ورثے میں فخر کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
3) میڈیا مثبت اقدار کو فروغ دے اور ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کرے جو قومی اقدار کو مجروح کرتاہو اور منفی تصورات کو فروغ دیتاہو۔
4) ایسے قوانین کو نافذ کیے جائیں جو قومی اقدار کی حفاظت کریں۔
5) نوجوانوں کو جامع تعمیری سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔
6) قومی اقدار پر مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور مختلف نقطہ نظر کو سنا اور سمجھا جائے۔
7)معاشی پالیسیوں کو یقینی بنایا جائے اور معاشی عدم مساوات کو کم کیا جائے۔
پاکستان میں جہاں ہنگامی بنیادوں پر متعدد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہاں اقدار اور اخلاقیات پر بھی فوری اقدامات کرنا مملکت خداداد کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اقدار اور اخلاقیات کے زوال اور گراوٹ کے رحجان کی روک تھام کے لیے تمام اسٹیک ہولڈر کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقدار اور اخلاقیات پر کام عظیم الشان پاکستان کی طرف ایک اہم قدم تصور ہوگا۔