وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے سخت احکامات کے باوجود شہر میں قاتل پتنگ بازی جاری رہی ہے۔ گزشتہ روز دو نوجوان موٹر سائیکل پر ڈور پھرنے سے زخمی ہوگئے۔ ماڈل ٹاؤن موڑ کے قریب 28 سالہ عدنان کے گلے پر کٹی پتنگ کی ڈور پھر گئی جبکہ فیروز پور روڈ رضوان یوسف واپڈااہلکاربھی ایسے ہی حادثے سے دوچار ہوا۔ کراچی میں بھی کچھ لوگوں کے ڈور سے زخمی ہونے کے واقعات ہوئے ہیں۔ لاہور پولیس پتنگ بازی پر قابو پانے میں مکمل ناکام اور بے بس نظر آتی ہے۔ فیصل آباد کے نوجوان آصف کی درد ناک موت کے بعد وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی طرف سے سخت نوٹس لیتے ہوئے احکام جاری کیے گئے تھے لیکن ان کا پولیس خاطر خواہ اثر دکھائی نہیں دیا۔ کل ہونے والے دونوں واقعات لاہور شہر کے اندر ہوئے ہیں اگر پولیس کی رٹ کاصوبائی دارالحکومت کے اندر یہ حال ہے جہاں وہ الرٹ بھی ہے اورکثیر تعداد میں بھی تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواحی علاقوں میں کیا صورتحال ہوگی۔ ایک طرف حکومت کی پوری کوشش ہے کہ پتنگ بازی کے ناسور سے نجات حاصل کی جائے اور دوسری طرف عین اسی دوران پتنگ بازی کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی ویڈیو وائرل ہوگئی جو انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ اس پر ترجمان پنجاب پولیس نے کہا کہ ویڈیو ایک سال پرانی ہے۔ پولیس حکام سے سوال یہ ہے کہ پتنگ بازی پر پابندی کیا چند ماہ پہلے لگی ہے؟ پتنگ بازی پر پابندی کئی سال پہلے لگائی جا چکی تھی۔ اگر یہ ایک سال پہلے کی ویڈیو ہے تب بھی پولیس والوں کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ غیر قانونی ہے۔ کیا اس پر کوئی نوٹس لیا گیا؟ نوٹس لیا گیا ہوتا تو یہ بلا جواز قسم کی وضاحت نہ کی جاتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ڈور پھرنے سے دو افراد کے زخمی ہونے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ سخت احکام کے باوجود پتنگ بازی اور ڈور پھرنے کے واقعات پر تشویش ہے۔ پتنگ بازی کے خونی کھیل کو ختم کریں۔ بادی النظر میں وزیر اعلیٰ کے پہلے احکامات کو پولیس نے ہوا میں اڑا دیا، اب دوسرے احکام کا کیا حشر ہوتا ہے یہ بھی نظر آ ہی جائے گا۔ پتنگ بازی کے خونیں کھیل کو اگر ختم کرنا ہے تو پھر جہاں ڈور پھرنے کا واقعہ ہو اس تھانے کے ایس ایچ او اور علاقے کے بیٹ انچارج کو معطل نہیں بلکہ برطرف کر دیا جائے تو دو چار برطرفیوں کے بعد پتنگ بازی کا کھیل مکمل طور پر رک جائے گا۔