اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اتوار کو جاری بیان میں کہا حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا۔ آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفت امتیاز کی جانب سے خط لکھا گیا۔ ایمان زینب مزاری، زینب جنجوعہ، عبدالمعیز جعفری، سلمان اکرم راجا، تیمور ملک اور سابق چیف جسٹس اور تصدق جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی نے ایک عوامی بیان جاری کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جن تمام لوگوں نے اس پر دستخط کیے انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی روشنی میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک رسائی کے لیے ہماری غیر متزلزل عزم اور پوری دلی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے بیان جاری کیا۔ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبر پی کے بار کونسل اور بلوچستان بار کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قراردادوں کی اس حد تک توثیق کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کرتی ہیں اور ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے جرات مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں اور ایسے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بیان کے مطابق جب ججز کو منظم طریقے سے ڈرایا جاتا ہے تو پورا نظام عدل ایک دھوکا بن جاتا ہے اور اپنی ساکھ کھو دیتا ہے، پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز پر زور دیا گیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو مستحکم کرنے اور اجتماعی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے فوری بنیادوں پر وکلا کنونشن بلائیں۔بیان میں عدالت عظمیٰ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔ اس معاملے سے عوام کے سامنے شفاف طریقے سے نمٹا جانا چاہیے‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بنچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔ جسٹس (ر) شوکت صدیقی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔ اس کارروائی میں اگر ثابت ہو تو ایگزیکٹو اہلکاروں کی طرف سے کی گئی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی عائد کرنی چاہیے اور عدلیہ کی آزادی کو محفوظ بنانے اور عدلیہ کے ادارے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ذمہ داروں کو جوابدہ بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔ بیان میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا کہ وہ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور سپریم کورٹ تمام ہائی کورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے اور اس سے مؤثر اور شفاف طریقے سے نمٹا جا سکے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی عدلیہ کی آزادی پر اعتراض نہ کرے۔