گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو حساس تنصیبات پر حملے، جلا ئو گھیرائو کے مقدمہ میں گرفتار 51 ملزموں کو مختلف دفعات کے تحت پانچ، پانچ سال قید اور دس، دس ہزار روپے جرمانے کی سزا کا حکم سنا دیا۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزموں پر دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی تھیں۔ ان واقعات میں ملک کے مختلف شہروں میں دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ شہداء کی یادگاروں کو توڑا پھوڑا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے مقدمات کے فیصلے جلد ہو جاتے ہیں لیکن یہ فیصلہ 10 ساڑھے دس ماہ کے بعد آیا ہے۔ فیصلہ جلد آ جاتا تو ملزموں کی جو اب مجرم بن چکے ہیں ان کی قسمت کا بھی اتنا ہی جلد فیصلہ ممکن تھا۔ اگران کو لگتا ہے کہ ان کو ملنے والی سزا نہیں بنتی تھی تو اب یہ اگلے فورمز پر جا سکتے ہیں۔ ان ملزموں کو سزائیں دہشت گردی اور غداری کی دفعات کے تحت نہیں بلکہ 9 مئی کو ان کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ اور پولیس پر حملوں کے الزامات کے تحت دی گئی ہیں۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ ایک خوفناک عمل تھا۔ سیاست میں آپ کے تحفظات ہو سکتے ہیں جن کے حل کے لیے پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ احتجاج اور مظاہروں کا طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن قانون کو ہاتھ میں لینا، اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ 9 مئی کو جس طرح لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کو جلایا گیا، دیگر دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، یہ پاکستان کے دفاع کو کمزور اور دشمن کو اس کے کچھ بھی کیے بنا مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ ایسے معاملات کہیں بھی کسی بھی ریاست میں ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ٹھہرتے ہیں۔ امریکا میں کیا ہوا ؟ الزام ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایما پر کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کو جن سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کے سامنے ہیں۔ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ اب تک بھی ان کے لیے ہموار نہیں ہو سکا۔ عمران خان کی گرفتاری پر ہوش سے کام لیا گیا ہوتا، دانشمندی سے فیصلہ کیا گیا ہوتا تو آج خود پارٹی، پارٹی قیادت، لیڈروں اور جوشیلے کارکنوں کو ان بھیانک نتائج و حالات کاسامنا نہ کرنا پڑا جن کا اب کوئی مداوا نظر نہیں آتا ۔