حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضہ ملنے کی امید پر حکومت کی طرف سے معاشی بہتری آنے کے کئی دعوے تو کیے جارہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں سے آئی ایم ایف سے قرضہ لے رہا ہے اور تب سے ہی مسلسل عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ جلد معاشی استحکام آ جائے گا۔ ایسا ہی ایک بیان وفاقی وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی دیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ جون تک مہنگائی میں 3 فیصد کمی آجائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپیہ مستحکم ہوا۔ یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ روپے کی قدر میں استحکام کا باعث بنا لیکن اس سے مہنگائی کس حد قابو میں آئی یا عام آدمی کو کیا ریلیف ملا، اس بات کا جواب عطا اللہ تارڑ شاید نہیں دے پائیں گے کیونکہ اس کا کوئی تسلی بخش جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی وزیر اطلاعات عوام کو جون تک مہنگائی کے کم ہونے کی نوید سنا رہے ہیں اور دوسری جانب اس قسم کی خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف سے نئے قرض کے لیے توانائی شعبے کے لیے سبسڈی کو کم کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس سلسلے میں رواں سال کی نسبت آئندہ مالی سال توانائی شعبے کی سبسڈی میں 375 ارب روپے کٹوتی کا تخمینہ ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے توانائی شعبے کو چھے سو ارب روپے سے زائد سبسڈی ملنے کا تخمینہ ہے۔ ظاہر ہے جب سبسڈی کم ہوگی تو قیمت میں اضافے کا بوجھ عام آدمی کو ہی اٹھانا پڑے گا اور اگر بجلی کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کے ساتھ دوسری اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال میں جون تک مہنگائی میں تین فیصد کمی کس فارمولے کے تحت آئے گی، یہ عطا اللہ تارڑ کو عوام کو ضرور سمجھانا چاہیے۔
خیر، اس صورتحال میں خوش آئند بات یہ ہے کہ قلیل مدتی امور پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے طویل مدتی پالیسی کے خدوخال واضح کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کابینہ کو5 سالہ روڈ میپ دیدیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ معیشت کا پہیہ چلے گا تو ملک خوشحال ہو گا، سرکاری اخراجات میں کمی اور برآمدات کے مجموعی حجم میں اضافہ کیا جائے گا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ فائل ورک کے بوجھ کو کم کریں، ملکی معاشی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے فوری طور پر اپنا کام شروع کرنا ہوگا۔خود کفالت کے حصول کے لیے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم ،مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں کو ترقی ، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور اسمگلنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تمام وزارتوں کو اہداف کے حوالے سے مراسلے جاری کر دیے گئے ہیں اور خود ہر وزارت کی کارکردگی کا جائزہ لوں گا۔
کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہباز شریف نے مزید کہا کہ احتساب کے ساتھ ذمہ داری پانچ سالہ روڈ میپ کی پہچان ہوگی کیونکہ دنیا کا کوئی بھی نظام اس کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم نے ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ مقصد کے لیے تمام دستیاب وسائل اور آلات کو تلاش کیا جائے ،جو دستیاب نہیں ہیں انھیں فوری طور پر منگوایا جائے، اگر کہیں انسانی وسائل کی کمی ہے تو بہترین یونیورسٹی سے قابل لوگ لیے جائیں جبکہ وزارتوں میں قابل سیکرٹریز موجود ہیں جن سے کام لیا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ تاخیر اور سرخ فیتے پر قابو پانے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) جیسا فورم دستیاب ہے، عالمی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے قوانین پر عمل کیا جانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں زراعت ، پٹرولیم ، توانائی سمیت تمام شعبوں میں ترقی کرنے کے لیے اصلاحات لانی ہوں گی، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں جس کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹائزیشن کرنے جا رہے ہیں۔
شہباز شریف جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ سب کچھ بیانات کی حد تک تو بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت عملی اقدامات کے ضمن میں کیا کچھ کرتی ہے اور اس کے معیشت پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کا ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ عوام کو مطمئن کرنے کے دعوے تو بہت سے کیے جاتے ہیں اور بیانات بھی بہت خوشنما دیے جاتے ہیں لیکن جب اقدامات کی باری آتی ہے تو وہی سب کچھ کیا جاتا ہے جس سے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہوسکتا ہے اور کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کیا جاتا جو صرف اور صرف ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو۔ اس سب کی وجہ سے ہی ملک اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوست ممالک کی مدد کے بغیر ہم اپنے معاملات چلا ہی نہیں سکتے۔ حکومت جب تک معیشت کا غیر ضروری بوجھ کم نہیں کرتی تب تک استحکام آنے کی کوئی توقع نہیں ہے، اور سب سے بڑا غیر ضروری بوجھ یہی ہے کہ بجٹ میں سے ایک بڑی رقم اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے مراعات و سہولیات دینے پر خرچ ہو جاتی ہے۔