ناروے کا دھماکہ اور اسلام

چند برس قبل ہم اوسلو مشاعرہ پڑھنے گئے تو وہاں کی پرسکون فضا دیکھ کر خوشگوار خواب کا احساس ہوا۔ سڑک کے دونوں اطراف میں سبزے کے قالین‘ جنگل ایسے خوبصورت کہ دل چاہتا ہے انسان ان میں گم ہو جائے۔ رہائشی علاقے ٹریفک اور آلودگی سے پاک‘ پارکوں اور پگڈنڈیوں پر سائیکلنگ کرتے ننھے منے بچے‘ جابجا لٹکتے جھولے‘ یہاں جھیلیں بھی جال بنتی ہیں‘ موسم ابر آلود رہتا ہے‘ ادھر بارش ہوئی ادھر صاف‘ سورج تین چار گھنٹے کے لیے چھپتا ہے۔ ایک جگہ تو صرف پون گھنٹے کے لیے ڈوبنے کا تکلف ہی کرتا ہے۔ پارک سنہرے رنگ سے اٹے ہوئے۔ ایسی خوشگوار فضا میں ایک دھماکہ ہو اور لاشیں تڑپنے لگیں تو یہ ڈراﺅنا خواب ہی تو ہوگا۔ جہاں ایک پٹاخہ چلنا بھی خارج از امکان تھا وہاں ایک نائٹ ٹمپلر اینڈیسن بیرنگ نے دھماکے میں آٹھ لاشیں گرانے کے بعد ایک اور مقام پر اپنے ہی لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ آناً فاناً 92لوگ مارے گئے۔ صرف ناروے میں ہی نہیں پورے یورپ میں زلزلہ آگیا۔ پوری دنیا کے مسلمان سہم کر رہ گئے کہ ناروے کے اس نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر کیا گزرے گی‘ ان پر قیامت ٹوٹی کہ ٹوٹی۔ ہم پاکستانی! رحمن ملک کے سکرین پر آنے کا انتظار کرتے رہے کہ وہ ایسا نادر موقع کبھی ضائع نہیں کرتے۔ وہ دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے د و تین دہشت گردوں کی نشاندہی کرنے میں دیر نہ لگاتے مگر ان کے دل کی دل میں رہی اور یورپ کا طوفان بدتمیزی بھی یکایک ٹل گیا کہ لنکا ڈھانے والا ان کے گھر کا بھیدی نکلا۔ گوروں کو اپنا پیٹ ننگا ہوتا نظر آیا تو منافقانہ تبصرے ہونے لگے۔ ایک ڈاکٹر نے انہیں دہشت گرد کہنے کی بجائے دماغی مریض بتا دیا مگر سچ بہت طاقت ور ہوتا ہے‘ نہیں چھپتا۔ پتہ چلا کہ وہ تو ایک طرح سے ٹمپلرز کی تنظیم چلا رہا ہے ایک نہیں دو تنظیمیں۔ اس نے پندرہ صد صفحات پر مشتمل ایک منشور بھی دیا تھا جس میں یورپ سے مسلمانوں کو نکالنے کی تدبیر ڈھونڈنے کی سعی کی گئی تھی۔ اس کے ہندو دوستوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف خوب اکسارکھا تھا۔ ہندوﺅں کوبہت پسند کرتا۔ اسے دو ہستیوں سے بے حد نفرت تھی۔ وہ ہیں ڈاکٹر محمد علامہ اقبال اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ تبصرے کی ضرورت نہیں۔ اس نے پسندیدگی میں پاکستان کے دو روشن خیالوں کے نام بھی لیے۔ شاید اس پر بات کرنے کی بھی قطعاً ضرورت نہیں۔ تاہم ان دو مسلم بیزار دانشوروں کے بقول ہندوﺅں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا تھا جبکہ یہ تاریخی جھوٹ ہے۔ اینڈرسن کے نزدیک سب سے بڑا معمہ بھی یہی ہے کہ آخر یورپ کے لوگ تیزی سے مسلمان کیوں ہو رہے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دن بدن بڑھ کیوں رہی ہے۔ اب اس میں مسلمانوں کا کیا قصور‘ یہ تو ان کی اپنی کمزوری ہے۔ افزائش نسل میں تیزی لانا تو خود ان کا مسئلہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اسی طرح آبادی کاتناسب رہا تو گورے اقلیت میں آ جائیں گے۔ اس نے احتجاج کا عجیب راستہ نکالا کہ فائرنگ کر کے اپنی ہی آبادی اور کم کر دی۔ بہرحال بات اتنی سیدھی نہیں۔ گریٹ گیم منکشف ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت اپنی انتہاﺅں کو پہنچ چکی ہے۔ موجودہ واقعہ اس گھٹن‘ تعصب اور غصے کا بے ساختہ اظہار ہے۔ اس سے پیشتر گستاخانہ خاکے‘ قرآن پاک کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی تضحیک کیا کچھ نہیں ہوا۔ اب ان کی نام نہاد تہذیب‘ رواداری‘ بردباری اور انصاف سب کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ یہ فری میسنز ہیں جو باقاعدہ پوری دنیا پر امریکہ کے تسلط کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی جلد باز اپنی خواہش لب پر لے آتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ باقاعدہ لوسیفر کے پجاری ہیں۔ بش نے بھی صلیبی جنگ کا ذکر کیا تھا اور پھر منافقانہ انداز میں مکر گیا مگر صلیبی جنگ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے عراق اور افغانستان میں کارپٹ بمباری کروا لاکھوں لوگوں کو شہید کر دیا۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بم مار مار کر دیہات کے دیہات صفحہ¿ ہستی سے مٹا دئیے۔ لوگ ناگا ساکی اور ہیروشیما کو بھول گئے۔ لطف کی بات تو یہ کہ امریکہ کے تمام ظلم و ستم کے باوجود یورپ اسلام کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ ان کے دانشور اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ بنیادی طور پر اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ جو اس کے قریب آتا ہے روحانی چین پاتا ہے اور آسودگی حاصل کرتا ہے۔ اسلام کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے۔ ایک نہ ایک دن سچ نے غالب آنا ہے۔ اگرچہ مسلمان سوئے ہوئے ہیں‘ خوابِ غفلت میں ہیں مگر پھر بھی انہوں نے یورپ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں مغرب کے حکمران ڈرتے ہیں کہ اگر مسلمان جاگ گئے تو کیا ہوگا؟

ای پیپر دی نیشن