ہمارے کروڑوں عوام کی سوچوں کا محور محدود، جبکہ حکمرانوں کی دور بینی، پیش بینی کا منظم اور مربوط منہ بولتا ثبوت ہے کہ مشرف نے بھی کانگریس کو جتوانے کیلئے جو بھارتی سرحد پہ جنگی مشقوں کا جتن کیا تھا۔اب اُسے اُس ایثار کا بدلہ ہمارے پسندیدہ ترین ملک کو لوٹنا ہے ۔ ورنہ تو فوجوں کا جھمگٹا ایک بہانہ اور ڈرامہ ہے کیونکہ اُنہیں عوام کو دشمنی مگر حکمرانوں کو دائمی دوستی کا ثبوت دینا ہے تاکہ ہمارے حکمرانوں کو درپیش مسائل سے کماحقہ نجات مل سکے گو اہداف حاصل کرنے کیلئے میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال و استعداد کار کے بارے میں بھی ایسے دھمکی آمیز بیانات آئیں گے مگر وہ اَمن کی آشا کے زیر اثر ہونگے اور وہ آسانی سے ہم وطنوں کی سوچ کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور انتخابات کے مطالبے کو پس پشت ڈال کر اصل حقائق سے عوام کی توجہ با آسانی ہٹا سکیں گے اور سپریم کورٹ کے بیانات اور فیصلے بھی حسب سابق قابل توجہ اور قابل عمل نہیں رہینگے کیونکہ دنیا کی توجہ دو ایٹمی ملکوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ تیسری عالمگیر جنگ کے خطرے کی جانب مبذول ہوجائیگی۔
آئی ایم ایف اور سٹیٹ بنک سے اربوں روپے ادھار لیکر اور اندرون ملک کرنسی نوٹوں کو فوٹو سٹیٹ مشین کی طرح چلا کر حکومت کو چار سال تک چلانے والی اگر کروڑوں ڈالرز کرزئی کو امداد کی مد میں دیتی ہے تو اخلاقاً وہ بھی ظرف کا ثبوت دیتے ہوئے ہماری مدد کیلئے ہماری چوکیوں پر حملہ اور ہمارے سیکورٹی جوانوں کو شہادت کا رتبہ دلانے میں ذرہ بھی باک نہیں کریگا اور الطاف حسین کی یہ بات صحیح کہ امریکہ افغانستان سے حملہ کریگا۔
ادھر متحدہ کے قائدین زرداری کے کہنے پہ جن سیاسی قائدین و مخالفین کو متحد کرنے کی مہم پہ نکلے ہیں،کس مسئلے پہ وہ اُن کو متحد کرناچاہتے ہیںیہ رعایا سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ وہی امریکی ہے جو ایران پاکستان گیس پائپ لائن نہ تو بچھانے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی عرصے سے ہمارے اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے دیتا ہے اور ہمارے ملک میں گندم پیدا کرنے کیلئے بھی وہ اہداف مقرر کرتا ہے مگر کشمیر کے مسئلے میں اُن کا یہ موقف ہے کہ یہ دونوں ممالک کا آپس کا معاملہ ہے۔
پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کو آپس میں ملنے پہ مجبور کرنیوالا اور حکم دینے والا اس بات سے کیسے بے خبر ہے کہ بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ، جنگی طیاروں راڈار اور فضائیہ کے علاوہ آرمی کی آپریشنل یونٹس کے قیام میں اضافہ کرنے کے علاوہ سرحد کیساتھ مزید چوکیاں قائم کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے اور بھارتی جنگی طیاروں سخوئی30 کا سکوڈرن مستقل طورپر پنجاب کے علاقے اور جودھپور میں رکھنے کافیصلہ کرلیا ہے اس کے علاوہ وہ جدید ترین راڈار سسٹم بھی نصب کر رہا ہے۔اُس نے فوری طورپر ائر کمانڈ اور کنٹرول نے دو یونٹ آپریشنل بھی کردئیے ہیں۔ بھارت اپنی فضائیہ میں روسی طیارے سخوئی کی شمولیت پہ بہت نازاں ہے۔
کیا ان حقائق سے سُپر طاقت بے خبر ہے؟ امریکہ کی بحری نقل و حرکت سے قوم کو آگاہ کرنیوالے الطاف حسین اگر بھارت کی اس جنگی نقل و حرکت سے باخبر تھے تو اُنہیں اس سے بھی قوم کو آگاہ کردیناچاہئے تھا متحدہ کو اتحادی بننے پہ مصر نہیں بلکہ ہر حقائق پہ قوم کو اعتماد میں لیناچاہئے کیونکہ اتحاد میں رہنے سے اُنہیں وقتی فائدہ ضرور ہوگا مگر مستقبل میں یہی اتحاد منفی رُخ اختیار کرلیگا!