واشنگٹن (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ سپیشل رپورٹ) نامزد امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے پاکستان پر ”ڈومور“ کیلئے دباﺅ ڈالیں گے۔ منگل کو اپنی نامزدگی کی توثیق کیلئے سینٹ کی سماعت کے دوران رچرڈ اولسن نے کہا کہ پاکستان کی مدد سے ہم القاعدہ کو بطور تنظیم شکست دینے کے قریب ہیں تاہم پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خطرے کے خلاف مزید اقدامات کرنا ہونگے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان امریکہ تعلقات انتہائی مشکل میں ہیں تاہم یہ دونوں ممالک کے لئے اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان میں امریکی مفادات سے متعلق کام کرنے کا خواہاں ہوں۔ امریکہ پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کیلئے دباﺅ ڈالتے رہیں گے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر القاعدہ کے سرکردہ ارکان کو پکڑنا ممکن نہیں تھا۔ دریں اثناءامریکی سنیٹر کیری لوگر نے کہا ہے کہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ امریکہ اسی طرح افغانستان چھوڑ جائے گا جیسے 1980ءکی دہائی میں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے وہ درانداز گروپوں پر انحصار کرتا ہے، پاکستان نے 38 ہزار شہری اور 6 ہزار فوجی اور سیکورٹی اہلکار کھوئے۔ القاعدہ پاکستان میں ہے اور ہمیں اب اپنے وسائل کا رخ پاکستان اور یمن کی جانب موڑنا ہو گا، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کے بارے میں فکر ہے۔ ادھر امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان کیلئے نامزد امریکی سفیر ستمبر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ دریں اثنا امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اپنے سکیورٹی اداروں اور حقان گروپ کے درمیان باقی رہ جانیوالے تعلقات ختم کرائے اور افغانستان میں بم بنانے کیلئے استعمال ہونیوالے میٹریل کی سپلائی روکے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے القاعدہ کے خلاف ایکشن لینے پر پاکستان کی تعریف بھی کی ہے۔ محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقانی گروپ اور لشکر طیبہ کے خلاف پاکستان کی کوششیں کمزور ہیں ۔اسامہ بن لادن کے مرنے کے بعد القاعدہ کو شکست کا سامنا ہے تاہم مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں القاعدہ کے گروپ ابھی تک خطرہ ہیں اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اگرچہ القاعدہ کمزور ہوئی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے خطوں میں القاعدہ سے منسلک گروپ مضبوط ہورہے ہیں گزشتہ برس میں پاکستان میں عوام پر عسکری گروپ کے حملے بڑھے 2012ءپاکستان کیلئے تباہ کن تھا۔ جس میں اشیائے خوردو نوش اور ایندھن کی قیمیتیں نئی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ مذہبی آزادیوں کے حوالے سے رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملے بڑھنے اور اقلیتوں کے عدم تحفظ بڑھنے کی دو مثالیں گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل ہیں۔ اسکے علاوہ گزشتہ برس سندھ میں ہولناک سیلاب بھی آیا جس سے سات لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔