لاہور (اپنے نامہ نگار سے) میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سنسنی پھیلانے کی بجائے ذمہ داری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دے سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے عوامی ایشوز کی سیاست کریں۔ ان خیالات کا اظہار حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان میں منعقدہ سیاسی رواداری اور برداشت کلچر، صورتحال اور تقاضے، میڈیا کا کردار کے موضوع پر سیمنار سے خطاب کر نے والے مقررین نے کیا۔ نظامت کے فرائض ابصار عبدالعلی نے انجام دیئے۔ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ میاں محبوب احمد نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے لیڈر نہ تو قوم کی راہنمائی کر رہے ہیں نہ ہی سچ بول رہے ہیں۔ ان کی نیتوں میں فتور ہے یہ ہر کام اپنے مفادات کے لئے کرتے ہیں قانون سازی بھی عوامی مفاد میں نہیں ہو رہی ہے توہین عدالت کے حوالے سے لایا جانے والا بل کیا عوامی مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کو دین سمجھ کر کیا جائے تو تمام خرابیاں دور ہو سکتی ہیں اللہ کا نظام لانا ہے تو مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں اصلاح کا عمل نیچلی سطح سے شروع کرنے سے سوسائیٹی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے راہنما اور رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر خان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر برداشت بڑھانا ہو گی بلوچستان کے عوام کو غدار قرار دینے سے پہلے ان کا موقف سننا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کر نا ہوگا میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ سنسنی پھیلانے کی بجائے وہ ذمہ داری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دے سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے عوامی ایشوز کی سیاست کریں۔ سیاسی جماعیتیں ناکام ہو سکتی ہیں لیکن جمہوریت کبھی ناکام نہیں ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی عظمی بخاری نے کہا کہ ماضی کے اندر سیاست دانوں کی لڑائی کا فائدہ ہمیشہ تیسری قوت اٹھاتی رہی سیاسی جماعتوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اگر آنے والے دنوں میں برداشت کے کلچر کو فروغ نہ دیا تو الیکشن خونی ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے راہنما محمود الرشید نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں سیاست میں برداشت کا کلچرل ختم ہو تا جارہا ہے سیاست دانوں کی توجہ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے پر مرکوز ہے سیاسی جماعتیں اداروں کا روپ نہیں دھار سکیں۔ نوائے وقت ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن فضل حسین اعوان نے کہا کہ اداروں میں برداشت کے باعث ہی آج ملک میں جمہوریت قائم ہے مفاہمت کا یہ ثمر ہے کہ ادارے اپنی آئینی مدت پوری کرتے نظر آرہے ہیں اداروں کا موجودہ کلچر حوصلہ شکن نہیں حوصلہ افزاءہے۔