چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت کےتین رکنی بنچ نےعاصمہ جہانگیرکی درخواست کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اپنی مرضی کا قانون بنانے کیلئے حکومت نے دو دن بھی نہیں لگائے مگر انتہائی اہم نوعیت کی قانون سازی نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ غریب کے بچے مررہے ہیں مگرکسی کو پرواہ نہیں،محکمہ صحت سورہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غریب لوگ اپنےاعضاء بیچ کر اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ انسانی اعضاء سے متعلق قانون سادہ ہونا چاہئے،جہاں انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری ہوگی وہا ں کا چیف سیکرٹری اس کا ذمہ دار ہوگا، اٹھارویں ترمیم کے بعد حالات اور زیادہ خراب ہوگئے ہیں، سمجھ نہیں آرہی کہ پنجاب حکومت کیا کررہی ہے؟ عدالت نے ہدایت کی کہ تمام چیف سیکرٹری اس معاملے پر توجہ دیں، عدالتی استفسارپرایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے رولزبنانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے جوتین روز میں حتمی رپورٹ پیش کردے گی جس پرچیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک قانون نہیں ہوگا ہرکسی کوکھلی چھٹی ہے، سیشن جج سرگودھا کہ رپورٹ میں واضح طورپرپنجاب بھرمیں انسانی اعضا کی غیرقانونی فروخت کے ثبوت اورحقائق ملتے ہیں۔ عدالت عظمی نے تمام صوبائی چیف سیکرٹریزاورکمشنراسلام آباد کوسیشن جج کی رپورٹ میں دی گئی سفارشات کی روشنی میں رولزبنانے جبکہ پنجاب حکومت کواعضا کی غیرقانونی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سماعت دوہفتوں کےلیے ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نےانسانی اعضاءکی پیوند کاری اورخریدوفروخت کےمقدمےمیں وفاق اور صوبوں کو قواعد کے نفاذ کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی ہے
Aug 01, 2012 | 20:40