پشاور۔۔۔ ایم ریاض ۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان وٹانک کے قبائلی علاقوںسے متصل ہے اوریوںدیگرجرائم میںملوث قیدیوںکے ساتھ ساتھ عسکریت پسندی اوردہشت گردی کے الزامات میں گرفتارقیدیوں کی بڑی تعدادیہاں موجودتھی یہ امربھی قابل ذکرہے کہ خیبرپختونخوامیں عام طورپرخطرناک (اورغیرجمہوری ادوار میں سیاسی)قیدیوں کوزیادہ اذیت دینے کی غرض موسم گرمامیں ڈیرہ اسماعیل خان کی اس جیل منتقل کیاجاتاجہاں کی گرمی اورمچھران قیدیوںکی بھرپورتواضع کرتے عمومی تاثریہی تھاکہ اس جیل کے حفاظتی انتظامات صوبہ کی دیگرجیلوںکے مقابلہ میںکہیںزیادہ سخت تھے اورخصوصاجب گذشتہ سال صوبہ کے ایک اورجنوبی ضلع بنوںکی سنٹرل جیل پرحملہ کرکے وہاںسے سینکڑوںقیدیوںکورہاکرایاگیاتھالیکن پیراورمنگل کی درمیانی شب سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پرحملہ کیاگیاتونہ صرف تمام ترحفاظتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ حفاظت پرماموراداروںکابھی بھرم کھل گیاتحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ کے مطابق خودکش جیکٹوں،راکٹ لانچروں،دھماکہ خیزمواد،بموںاورخودکارہتھیاروںسے لیس ڈیڑھ سوطالبان جنگجوتقریبا چارگھنٹے کی اس کاروائی میںاہم طالبان کمانڈروں سمیت کم وبیش دوسوقیدیوںکورہاکراکے اپنے ساتھ لے گئے اور اس حقیقت کہ بھاری بھرکم سازوسامان سے لیس ڈیڑھ سومسلح جنگجوو¾ںکو اس گنجان اورحساس علاقہ تک لانا اور کئی گھنٹے کی کارروائی کے بعد مزیداڑھائی سو افراد(رہاشدہ قیدیوں)کے ساتھ چارسو مسلح افراد کا یہ قافلہ واپسی پرکسی جلوس یابارات سے کم نہ ہوگا کو نظراندازکرتے ہوئے جیلخانہ جات کے لئے وزیراعلی خیبرپختونخواکے مشیر ملک محمدقاسم نے بھی یہی کہا کہ اس کارروائی میںڈیڑھ سومسلح حملہ آوروں نے حصہ لیاجبکہ دوسری طرف انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے صوبائی حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کوسنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پرعسکریت پسندوںکے ممکنہ حملہ کی پیشگی وارننگ دیئے جانے کے باوجود وزیراعلی پرویزخٹک نے اس واقعہ کوانٹیلی جنس اداروںکی ناکامی قراردیتے ہوئے کہاکہ بڑے پیمانے پرہونے والی اس کاروائی میںکوئی چھوٹانہیںبلکہ بڑاہاتھ ملوث ہے اوراس کے ذمہ داربچ نہ سکیںگے لیکن وزیراعلی کے اس بیان کے فورابعدجن 22اہلکاروںکی معطلی کے احکامات جاری ہوئے ان میںایلیٹ فورس کے ایس پی اور ڈی ایس پی کے علاوہ ماتحت اہلکاریعنی سپاہی وغیرہ شامل تھے جبکہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے سینئرممبربورڈآف ریونیواورایڈیشنل انسپکٹرجنرل سپیشل پولیس پرمشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا گیاہے ویسے معاملات کے بارے میں حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتاہے کہ صوبہ میںگذشتہ ایک سال سے گریڈ18کے ایک افسرقائمقام آئی جی جیلخانہ جات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کے پاس سنٹرل جیل پشاور کے سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داریاں بھی ہیںصوبہ میں تحریک انصاف حکومت کے قیام سے عوام نے امن کی بحالی کی امیدیں وابستہ کررکھی تھیںلیکن صوبہ میںوزارت اعلی سنبھالنے سے قبل ہی پرویزخٹک کی جانب سے طالبان کےلئے خیرسگالی کے بھرپور اشاروں کے باوجودموجودہ صوبائی حکومت کے قیام کے بعد سے صورت حال میں چنداں بہتری نہیں آئی ہے اور اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ تحریک ا نصاف کی صوبائی حکومت صوبہ میںبدامنی کے ہرواقعہ کیلئے ملبہ وفاقی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر ڈالنے کی پالیسی پرگامزن ہے لیکن سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعات سے قبل اور بعد کے حالات سے واقفیت رکھنے والوںکے نزدیک انٹیلی جنس اداروں کی بروقت اطلاعات کے باوجود مقامی(یعنی ضلعی و ڈویژنل)ا ور صوبائی حکام کی جانب سے اس واقعہ کی روک تھام کےلئے کوئی پیش بندی نہ کرنے کے بعدصوبائی حکومت کے لئے اس واقعہ کا ملبہ وفاقی حکومت یا اس کی پالیسیوں پر نہ ڈال سکے گی جہاںتک صدارتی انتخاب کاتعلق ہے عمومی توقعات کے برعکس پاکستان مسلم لیگ(ن)نے خیبرپختونخوااسمبلی میںاچھی کارکردگی کامظاہرہ کیاصدرپاکستان کے انتخاب کیلئے خیبرپختونخوااسمبلی میںمنعقدہ پولنگ کے دوران110ارکان اسمبلی نے ووٹ کاحق استعمال کیاجن میںپاکستان تحریک انصاف کے نامزدامیدوارجسٹس(ر)وجیہہ الدین احمدنے 69ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ممنون حسین نے41ووٹ حاصل کئے جے یوآئی(ف)اورصوبہ کی مخلوط حکومت میںشامل آفتاب شیرپاﺅکی قومی وطن پارٹی نے بھی مسلم لیگ(ن)کے ا میدوارکوووٹ دئیے جبکہ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے امیدوارکے حق میںووٹ استعمال کئے124ارکان کے ایوان میںعوامی نیشنل پارٹی اورپاکستان پیپلزپارٹی کے 8ارکان نے انتخابی عمل کابائیکاٹ کرتے ہوئے ووٹ پول نہیںکئے جے یوآئی(ف)کی خاتون رکن رومانہ جلیل اورقومی وطن پارٹی کے ابرارحسین بیرون ملک موجود گی کے باعث اپنے ووٹ نہ ڈال سکے ۔