مصر کے باغی جرنیل اسیسی کی سرپرست مغربی حکومتوں کی جانب سے بہ اعادہ و تکرار یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ یا تو معزول صدر محمد مُرسی پر فردِ جُرم عائد کی جائے یا پھر اُنھیں رہا کر دیا جائے۔بالآخر باغی جرنیل نے صدر مُرسی پر فردِ جُرم عائد کر کے اپنے آقا¶ں کا مطالبہ منظور کر لیا ۔میں یہ فردِ جُرم پڑھ کر اِس حیرت میں گُم ہو گیا ہوں کہ یہ فردِ جُرم مصر کی غیرآئینی فوجی حکومت نے عائد کی ہے یا اسرائیل کی عرب دُشمن حکومت نے۔ فردِ جُرم یہ ہے کہ صدر محمد مُرسی حمّاس سے تعاون کے مرتکب چلے آ رہے تھے۔ صدر محمد مُرسی اخوان المسلمون سے اٹوٹ نظریاتی اور عملی وابستگی رکھتے ہیں اور حماس اخوان المسلمون ہی کی ایک شاخ ہے۔ہرچند اخوان المسلمون مشرقِ وسطیٰ اور مغربِ اقصیٰ کے مختلف ممالک میں متنوع حکمتِ عملی اختیار کرتی چلی آ رہی ہے تاہم اُس کی بنیادی حکمت اخوان ہی سے اٹوٹ نظریاتی وابستگی میں پنہاں ہے۔
عام طور پر حماس کو ایک عسکری تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات غلط العام ضرور ہے مگر درست ہر گز نہیں۔ حماس عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں شرکت کو کارِ ثواب ٹھہراتی ہے۔ چنانچہ حما س کے زیرِ انتظام متعدد فلاحی ادارے کام کرتے ہیں۔ اِسی طرح یہ تنظیم انتخابی سیاست پر بھی یقین رکھتی ہے ۔ شام میں اِس کا ایک بڑا نصب العین جمہوری عمل کے لیے فضا سازگار بنانا بھی ہے۔ جہاںحالات عسکریت کا تقاضا کریں وہاں عسکری سرگرمیوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ فلسطینی تنظیم الفتح اور حماس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حماس خود کو فقط فلسطین کی آزادی تک محدود رکھنے کی قائل نہیں ہے بلکہ مقامی کی بجائے ایک بین الاسلامی تنظیم ہونے کی دعویدار ہے۔ تصور اور عمل کا یہ فرق ہر دو تنظیموں کے درمیان رنجش کا سبب بھی بنتا رہا ہے۔ 2007ءمیں یہ رنجش اِس قدر بڑھ گئی کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبداللہ نے ہر دو تنظیموں کو مکہ معظمہ میں مذاکرات کے لیے بُلایا اور اِن کے مابین صلح و صفائی کی ۔ اِس موقعے پر سعودی مخیّر حضرات نے حماس کو فراخدلانہ مالی امداد بھی دی۔
مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ ساتھ مغربِ اقصیٰ میں بھی حماس اصلاحی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ الجزائر میں حماس کو 5دسمبر 1990ءکو ایک سیاسی جماعت قرار دے دیا گیا تھا۔الجزائر میں حماس کوبااثرترین خیراتی تنظیم ...... الارشاد والاصلاح ...... کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔یہاں حماس کواخوان المسلمون سے منسلک ایک ایسی سیاسی تنظیم کی حیثیت حاصل ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کراپنے مقاصدکے حصول میں سرگرمِ عمل ہے اور جو اسلام میں شوریٰ کے ایک ایسے تصور کی علمبردار ہے جس میں اختلافِ رائے کی آزادی اور آمریت کی ممانعت ہے۔جب الجزائر میں 1996ءکے آئین کے تحت سیاسی جماعتوں کا قیام اور سیاسی عمل کی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا تو حماس سوشل موومنٹ فار پیس کے نام سے سیاسی عمل میں شریک ہو گئی اور انتخابات کے عمل سے گزرتے ہوئے اقتدار میں شریک ہو کروزارتِ محنت کے ذریعے غریب اور متوسط طبقے کی بہبود میں سرگرمِ عمل ہو گئی۔یوں حماس نے ٹریڈ یونینز اور لیبر یونینز میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا کر اپنے پُرامن اسلامی اصلاحی پروگرام کو مقبولِ عوام بنانے کا فریضہ ادا کیا۔
آج صدر مُرسی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ دو برس پیشتر اُنہیں اور اخوان المسلمون کے متعدد دیگر کارکنوں کو حماس کے مسلح دستے نے جیل سے رہا کرایا تھا۔ حماس نے متعدد بار اِس الزام کی تردید کی ہے۔ گزشتہ روز حماس کے ترجمان نے اِس الزام کی تردید کرتے وقت کہا ہے کہ یہ الزام حماس کو مصر کے موجودہ سیاسی بحران میں ملوث کرنے کی ایک سازش ہے۔ ترجمان نے عرب لیگ کو اِس الزام کی جانب متوجہ کرتے ہوئے صورتِ حال میں اپنی ذمہ داری سے عہدہ براءہونے کی ترغیب دی ہے۔مصری فوج حماس کو اپنے لیے ایک خطرہ قرار دیتی ہے اور اِن دنوں معزول صدر مُرسی سے حماس کے ساتھ روابط کی تفتیش کر رہی ہے۔اِدھر اخوان المسلمون کی قیادت محمد مُرسی پر عائد کیے گئے سرکاری الزامات کو جھوٹ کے طُومار قرار دے رہی ہے۔اِس طرح کے الزامات سے مصری فوج کی سرپرست اسرائیل دوست قوتیں تو شاید مطمئن ہو جائیں مگر عرب عوام کے غم و غصّے میں مزید تیزی آ جائے گی۔
اندیشہ ہے کہ مغربی طاقتوں کے ریمورٹ کنٹرول کی دُھنوں پر رقص میں مصروف مصری افسر شاہی کی یہ فرعونی حکمتِ عملی مصر میں برپا خانہ جنگی کو طویل سے طویل تر کر دے گی اور یوں ، خدانخواستہ مصر میں بھی شام اور عراق کی سی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔مسلمان ، حیلے بہانے ،مسلمان کا خون بہانے اور اپنی قومی املاک کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف رہنے لگے گا۔ تباہی و بربادی کی اِس سنگین صورتِ حال سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جمہوری عمل کا فروغ و استحکام۔جناب محمد مُرسی جمہوری عمل اور عوا م کی اجتماعی رائے سے صدر منتخب ہوئے تھے۔مغرب کی سامراجی طاقتیں یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئیں کہ ایوانِ صدر کا جادو بھی اِس درویش صفت رہنما کو اخوان المسلمون کے مسلک سے رُوگرداں نہ کر سکا۔چنانچہ وہ اسرائیل سے مفاہمت اور رفاقت کی اُس راہ کو اختیار کرنے سے گریزاں رہا جس پر اُس کا پیش رو فوجی صدر سادات تیس برس تک سرجُھکائے چلتا رہا تھا۔ چنانچہ اسلامی حُریّت پسندی کے اِس مسلک سے محمد مرسی کی وفاداری بشرطِ استواری سے خائف سامراجی ریمورٹ کنٹرول حرکت میں آ گیا۔آج جبرواستبداد کی خُوگر جو سامراجی طاقتیں اخوان المسلمون کے محمد مُرسی کو اِس ”جرم “پر سزا دینے پر آمادہ ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، اُنہیں اِس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آج مصر کے اخوان المسلمون عیسائیوں کو بھی اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اُن کے ہاتھ میں تلوار نہیں بلکہ ووٹ کی پرچی ہے۔وہ انتخابی جمہوری عمل میں ووٹ کی طاقت سے ایوانِ اقتدار میںداخل ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تعصب اور تنگ نظری کے مسلک پر قائم نام نہاد لبرل دانشور اور سیاستدان اسلامی جمہوریت کے اِس فروغ کو اسلام کے سیاسی نظام (Political Islam) کی فتح قرار دیتے ہیں۔ پولیٹیکل اسلام قرونِ وسطیٰ میں مغربی دُنیا پر مسلمانوں کے تسلط کی یادیں تازہ کر دیتا ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ ماضی مغرب کا مستقبل بھی بن سکتا ہے۔ہرچندآج یہ بات ناممکنات میں سے ایک ہے تاہم مغرب کے ماضیِ بعید کی یہ یادیں ایک نفسیاتی مرض کی صورت اختیار کر چکی ہے۔نتیجہ یہ کہ مغربی سامراج کا ریمورٹ کنٹرول دُنیائے اسلام کے ہر خطّے میں خانہ جنگی کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔آج اخوان المسلمون کی سی قوّتیں جمہوری عوامی مسلک اپنا کر دُنیائے اسلام کی کھوئی ہوئی خود مختاری کی بازیافت میں مصروف ہیں۔ جب ہمیں پھر سے خود مختاری نصیب ہو گی تو ہماری افسر شاہی بھی ہمارے اپنے اختیار میں آ جائے گی۔رابرٹ فراسٹ نے قاہرہ میں مُنہ اندھیرے کے جس قتلِ عام کی خبر دی ہے اُس میں شہید ہونے والے 120 سے اُوپر باریش اخوان نے سینے ، سراور آنکھوں میں گولیاں کھائی ہیں۔ہسپتال کے باہر اور اندر میتّوں کے آس پاس اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں جنہیں سُن کر ڈاکٹر حبیب بے ساختہ پُکار اُٹھے تھے : ”بے شک اللہ جنرل اسیسی سے بہت بڑا ہے“ (ڈان، 23جون 2013ئ)۔کاش جنرل اسیسی اسرائیلی وزیراعظم سے مصر میں فوجی بغاوت کی اجازت لیتے وقت اِس ابدی صداقت کو فراموش نہ کرتے کہ اللہ اسیسی اور نٹن یاہُو، ہر دو سے بہت بڑا ہے۔ یہ تو نہ ہوا البتہ یہ ضرور ہوا کہ مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے فوراً بعد جنرل اسیسی نے وہ تینوں کے تینوں راستے مسدود کر دیئے جن سے فلسطینیوں کو غزہ میں امداد فراہم کی جا رہی تھی۔ باغی جنرل اسیسی کی انتظامیہ اب تک دو سو سے زائد اخوان کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر چکی ہے۔ اِس کے باوجود اپنے حامیوں سے میدان میں اُتر کر اُن کے مقابل ڈٹ جانے کی اپیلیں کر رہی ہے۔یہ گویا مصر میں شام کی سی خانہ جنگی برپا کر کے اسرائیل کے حفظ و امان کی سامراجی تمنّا کی صورت گری ہے!