قائداعظمؒ اور اسلامی اصول و اقدار

رمضان کریم کے مقدس مہینے میں قائداعظم کی زندگی کا یہ ایمان افروز واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے قائد کی زندگی اسلامی کردار کا عملی نمونہ تھی۔ برطانوی بادشاہ جارج ششم کے دور میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے۔ ان کا یہ دورہ ہندوستان کے لئے مزید اصلاحات کے سلسلہ میں تھا۔ قصر بکنگھم کی طرف سے قائداعظم کو ظہرانے کی دعوت دی گئی مگر قائداعظم نے یہ کہہ کر ظہرانے میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا کہ آج کل رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور مسلمانوں پر اس ماہ مقدس میں روزے رکھنا فرض ہے۔ ایک اور واقعہ میں آج اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ قائداعظم اسلام میں فرقہ وارایت کے کتنے شدید خلاف تھے۔ وہ مسلمانوں کو صرف مسلمانوں کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں بھی قائداعظم کی زندگی سے رہنمائی لینا چاہے اور پاکستان میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والوں کی سخت مخالفت کرنی چاہئے۔ ایک دفعہ ایک مسلمان صنعت کار نے ایک یتیم خانہ قائم کیا جو صرف ان کے فرقے سے تعلق رکھنے والے یتیم بچوں کے لئے تھا۔ قائداعظم کو اس یتیم خانہ کے افتتاح کی دعوت دی گئی تو قائداعظم نے فرمایا اگر یہ یتیم خانہ تمام مسلمان بچوں کے لئے ہے تو میں اس کا افتتاح کر سکتا ہوں ورنہ نہیں۔ یتیم خانہ کا بانی ہر صورت میں قائداعظم ہی سے افتتاح کا خواہش مند تھا۔ چنانچہ انہوں نے یتیم خانہ کا دستور تبدیل کر دیا اور اس یتیم خانہ کو ایک فرق تک محدود رکھنے کے بجائے تمام مسلمان بچوں کا یتیم خانہ بنا دیا۔ قائداعظم کی یہی مثبت سوچ تھی جس کے باعث تحریک پاکستان میں تمام مسلمان قوم فرقہ پرستی سے بالا ہو کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئی۔ اگر ہم قائداعظم کی دعوت پر ایک اللہ، ایک رسول اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک قوم کے طور پر متحد نہ ہوتے تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔ قائداعظم نے جس دین اسلام پر اپنی مسلمان قوم کو متحد کیا۔ وہ اسے سیاست سے الگ نہیں سمجھتے تھے اور یہ اعلان انہوں نے واضح الفاظ میں دسمبر 1938ءمیں مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس کے موقع پر علماءکے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا تھا ”دنیا کے دیگر مذاہب میں سیاست اور مذہب الگ الگ ہیں یا نہیں لیکن اسلام میں سیاست مذہب سے جدا نہیں ہے کیونکہ اسلام صرف عقائد اور چند عبادات کا نام نہیں بلکہ اسلام سیاسی امور، معاشرت اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ ہمیں ان سب کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا“اگست 1941ءمیں عثمانیہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے بالکل واضح انداز میں فرما دیا تھا کہ ”جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتاہوں تو اس زبان اور محاورے کے مطابق لامحالہ میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی تعلق کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن میں یہ بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود تصور نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں اور نہ کوئی ملا، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ قرآن حکیم کی اصولی ہدایت اور سیاسی طریقہ کار سے نہ صرف مسلمانوں کےلئے بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کےلئے حسن سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے“ ۔قائداعظم کے مندرجہ بالا فرمودات سے ایک اسلامی ملک کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں سیاست اور مذہب الگ الگ نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام صرف انسانیت کی روحانی پہلوﺅں کے حوالے سے راہنمائی نہیں کرتا بلکہ قرآن حکیم کی تعلیمات میں سیاست، معاشرت (اجتماعی زندگی) اور معیشت سارے شعبوں کے لئے رہنما اصول موجود ہیں حتیٰ کہ ایک اسلامی حکومت میں غیر مسلم اقلیتوں کے لئے حسن سلوک اور رواداری کو جو نظام موجود ہے اس کی مثال دنیا کا اور کوئی مذہب یا معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اسلام کے حوالے سے قائداعظم کے واضح پیغامات ہوتے ہوئے بھی نظریہ پاکستان سے منحرف سیکولر طبقہ دانستہ طور پر شرانگیزی کرتے ہوئے آج بھی یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان اسلام کی اساس پر نہیں بنایا گیا تھا اور نہ ہی قائداعظم پاکستان میں اسلامی نظام کے حق میں تھے۔ اگر قائداعظم اپنے حاصل کئے ہوئے ملک میں اسلامی حکومت کے حق میں نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی 25 جنوری 1948ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجتماع میں یہ ارشاد فرماتے کہ ”اسلامی اصولوں کا ہماری زندگیوں پر آج بھی اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ان اصولوں پر تیرہ سو سال پہلے عمل کیا گیا تھا“ میرا یقین ہے کہ جس طرح قیام پاکستان کےلئے اسلامی نظریہ بنیاد بنا تھا۔ آج بھی پاکستان کی بقا اور استحکام کےلئے اسلامی نظریہ بڑی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے بہت سارے مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں اسلامی اصولوں سے اپنی اجتماعی زندگی کو وابستہ نہیں کیا۔ انفرادی طورپر ہم اسلامی نظریئے پر عمل کرنے کی لاکھ کوشش کریں مگر جب تک ریاست کا مجموعی نظام اسلامی تعلیمات سے اپنا رشتہ استوار نہیں کرتا اس وقت تک ہمیں اسلامی ریاست کی برکات نصیب نہیں ہو سکتیں۔ یہ کیسا خوبصورت حسن اتفاق ہے کہ پاکستان 27 رمضان المبارک کی رات معرض وجود میں آیا جو نزول قرآن اور نزول وحی کی بھی مبار ک رات ہے۔ ہمارے لئے سلامتی کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ ہم اللہ کی اس آخری کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے تمام معاملات زندگی میں قرآن اور سنت رسول کی پیروی کریں۔ قائداعظم کا اس امر پر پورا یقین تھا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ ہمیں بھی قائداعظم کی اس گراں قدر تعلیمات کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔ (نظریہ پاکستان فورم کی تقریب میں پڑھا گیا) 

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن