فلسطین اسرائیل مذاکرات کی بحالی

Aug 01, 2013

احسان اللہ ثاقب

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی ۔۔۔ دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی


امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی شٹل ڈپلومیسی بالآخر رنگ لے آئی اور تین سال سے تعطل کا شکار فلسطین اسرائیل مذاکرات واشنگٹن میں بحال ہو چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فلسطین کے نمائندے صائب اور اریکات اور اسرائیل کے وزیر انصاف زیپی لا¶نی پہلی ملاقات میں مذاکرات کے دورانیہ اور اس کے اہم نکات پر گفتگو کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جون 1967ءسے قبل کی سرحدات‘ بیت المقدس اور فلسطینی ریاست کی حدود پر گفتگو کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ فلسطینیوں نے کہا ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ سے تحریری یقین دہانی چاہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کی سرحدات کا تعین کرتے وقت 1967ءکی سرحدوں کو بنیاد بنایا جائے گا۔ اسی دوران ایک بڑی اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے 13-7 کی اکثریت سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی 22 رکنی کابینہ نے طویل عرصہ سے قید 101 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے کچھ قیدی 20 سال سے بہادری سے یہودی قید خانوں میں اپنے جذبہ حریت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ قیدیوں کے معاملے میں اسرائیلی کابینہ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں تیرہ وزراءنے قیدیوں کی رہائی کے حق میں جبکہ سات نے مخالفت میں ووٹ دیا ہے اور دو نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نیتن یاہو کے مصمم ارادے کے سامنے مخالفین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پروگرام کے مطابق فلسطینی قیدیوں کو مذاکرات کی بحالی کے بعد صورتحال کے مطابق مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ ان قیدیوں میں ایک بہادر فلسطینی فارس بیروو بھی ہے جسے یہودیوں نے 22 سالوں سے پابند سلاسل کیا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں مذاکرات میں نہ صرف یہ طے کیا جائے گا کہ یہ سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ڈراما کتنا عرصہ جاری رہے گا۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ چھ ماہ کے عرصہ کے اندر ان مذاکرات کا نتیجہ سامنے آجانا چاہئے دوسری جانب یہودی یہ چاہتے ہے کہ گفت و شنید کا سلسلہ ایک سال جاری رہنا چاہئے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک مذاکرات کی بحالی کا عمل امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی عظیم سفارتی کامیابی ہے جو کہ اس نے چار ماہ کے دوران تل ابیب اور رملہ کے درمیان شبانہ روز سفر کرکے انجام دی ہے۔ مذاکرات کے دوران جن متنازع امور پر گرما گرم بحث ہو گی ان میں جون 1967ءسے پہلے کی سرحدات پر اسرائیلی افواج کی واپسی سرفہرست ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی کابینہ نے اس کو زیر بحث لانے کی منظوری دی ہے۔ علاوہ ازیں آزاد ریاست کے لئے سرحدات کا تعین بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ بیت المقدس نئی آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو گا مگر دوسری جانب یہودی اس مقدس شہر پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جوکہ عرب ممالک اور دیگر اسلامی دنیا کو ناقابل قبول ہے۔ اس کے بعد مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا مسئلہ بھی بڑا اہم ہے۔ جون 1967ءمیں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہودیوں نے مغربی کنارے کے ساتھ عرب علاقوں میں بے شمار یہودی بستیاں تعمیر کر ڈالی ہیں جوکہ غالباً گریٹر اسرائیل کا حصہ ہیں مگر اب موجودہ مذاکرات میں اسرائیل کیا موقف اختیار کرتا ہے یہ آنے والے ایام ہی بتائیں گے۔ اس وقت جب فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات بحال ہو رہے ہیں فلسطین کے ہمسایہ ملک مصر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ مصری افواج کے انقلابی سربراہ نے 3 جولائی کو معزول کردہ صدر مرسی اور اس کے حامیوں کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کر لیا ہے اور حال ہی میں ان پر فائرنگ کرکے 150 افراد کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہو گئے ہیں۔ مصر میں منتخب جمہوری حکومت کے خاتمہ کے معاملہ پر امریکہ اور مغربی ممالک نے دوغلی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ مصر کی موجودہ کشیدہ سیاسی صورت حال فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے ابھی اس بات کے تمام پہلو کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں۔ اسرائیل نے مذاکرات کا آغاز بوجہ مجبوری کیا ہے کیونکہ جب سے اقوام متحدہ نے فلسطین کو اپنی رکنیت دینے کا اعلان کیا ہے یہودی ریاست اخلاقی لحاظ سے دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت اور باراک اوباما دو ریاستی نظریے کو کہاں تک نافذ کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں کی تاریخ یہی ثابت کرتی ہے کہ وہی ہوتا ہے جوکہ امریکہ بہادر چاہتا ہے۔ 1991ءمیں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس کے مقابلے میں اسلامی دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم شدہ ہے حتیٰ کہ عرب ممالک بھی متحد نہیں ہیں۔ مصر‘ عراق‘ افغانستان اور پاکستان سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل کا مذاکرات کی میز پر آجانا ایک اچھا شگون ہے۔ دیکھیں آنے والے دنوں میں مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

مزیدخبریں