بھُٹّو اِزم۔ میں۔ عُہدہء صدارت!“

Aug 01, 2013

اثر چوہان

پی پی پی پی کے چیئرمین، مخدوم امین فہیم نے، جناب ممنون حسین کو۔ ”متنازع صدر“۔ قرار دِیا ہے اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ۔ ”ہم ممنون حسین کو صدر نہیں مانتے۔ وہ غیر آئینی صدر ہیں۔ہم اُن کا انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے“۔ سابق حکمران جماعت کے اِن دونوں قائدین کے بیانات۔ ”لہو گرم رکھنے کا بہانہ“۔ ہیں، ورنہ ممنون صاحب تو پاکستان تحریکِ انصاف کے جسٹس (ر) وجیہہ اُلدّین کو ہرا کر صدر منتخب ہُوئے ہیں، اورجب پی پی پی پی کے امیدوار ،میاں رضا ربانی نے تو، انتخاب لڑا ہی نہیں اور پی پی پی نے خصہ ہی نہیں لیا تو جناب ممنون حسین۔ ”غیر آئینی صدر“۔ کیسے ہو گئے؟۔ دراصل مخدوم امین فہیم اور بیرسٹر اعتزاز احسن کا نقطہءنظر۔ ”اندازِ بھُٹوانہ“۔کے سِوا اور کُچھ نہیں ہے۔
عُہدہءصدارت سے متعلق، مرحوم ذوالفقار علی بھٹو۔بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر جناب آصف زرداری کی سوچ کیا رہی ہے؟۔ اُس کا جواب ہمیں7اکتوبر 1958ءکو صدر سکندر مرزا کی طرف سے نافذ کئے گئے مارشل لاءاورمارشل لائی کابینہ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شمولیت سے ملے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ،سیاست میں لانے کا سہرا ۔صدرسکندر مرزا کے سر ہے ۔افسوس کہ بھٹو کے وارثوں نے ،لندن میں سکندر مرزا کی قبر پر کبھی پھول نہیں چڑھائے ۔ بھٹو صاحب نے،قلمدانِ وزارت سنبھالتے ہی اپنے مُحسن صدرکو خط لِکھا تھاکہ۔” جنابِ صدر! آپ قائدِ اعظم ؒسے بھی بڑے لیڈر ہیں!“ اور جب 20دِن بعد۔ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے۔ ”قائدِ اعظم ؒ سے بھی بڑے لیڈر“۔ کو جلا وطن کر کے، خودصدارت پر قبضہ کر لیا اور بھٹو صاحب کی وزارت بھی بحال رکھی تو اُنہوں نے صدر ایوب خان کو اپنا۔ ”روحانی والد“۔ تسلیم کر کے اُنہیں ”غازی صلاح اُلدّین ایوبی ثانی“۔ اور۔ ”ایشیاءکا ڈیگال“۔ مشہور کرنا شروع کر دیا۔
2جنوری کے صدارتی انتخاب میں، صِرف، 80ہزار ارکان بنیادی جمہوریت کو، صدر کے انتخاب میںووٹ ڈالنے کا حق دِیا گیا تھا۔ صدر ایوب کے مقابلے میں، مادرِ ملّت ،محترمہ فاطمہ جناح ؒ ، متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔اُن دِنوں یہ خبریں گرم ہوئیں کہ ۔”چونکہ، صدر ایوب خان (فیلڈ مارشل کی حیثیت سے ) سرکاری ملازم ہیں، اِس لئے ،چیف الیکشن کمشنر اُن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیں گے“۔صدر ایوب خان نے اِس خوف سے ، اپنی کابینہ کے دو ارکان محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے۔ "Covering Candidates"۔(متبادل امیدوار) نامزد کر دیا۔اِس سے ظاہر ہُوا کہ صدر ایوب واقعی۔بھٹو صاحب کو اپنا ۔”روحانی فرزند“۔ سمجھتے تھے۔ بھٹو صاحب نے جب اپنے ۔”روحانی والد“۔ کے خلاف تحریک شروع کی تو اُنہوں نے ، ہر عاقل و بالغ مرد اور عورت کے لئے ووٹ کا مطالبہ کِیا، لیکن جب وہ 1968ءمیں ساہیوال جیل میں قید تھے، تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل،مسٹر جے۔ اے۔ رحیم نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے مطالبہ کِیا کہ ۔”ذوالفقار علی بھٹو، بی۔ڈی۔ نظام کے تحت ہی صدر ایوب کا مقابلہ کریں گے۔ اُنہیں رِہا کیا جائے“۔
صدر ایوب خان، اقتدار سے دستبردار ہُوئے تو بھٹو صاحب،صدر جنرل یحییٰ خان کی مارشل لائی حکومت میں وزیرِ خارجہ بن گئے۔16دسمبر 1971ءکو جب پاکستان دو لخت ہو گیا، تو ذوالفقار علی بھٹو ۔ فوج کے ساتھ N.R.O کر کے، سوِیلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور۔ ”صدرِ پاکستان“۔بن گئے، لیکن اُنہوں نے غریبوں کے حق میں۔” انقلاب“۔ لانے کا وعدہ پورا نہیں کِیا۔ بھٹو صاحب،صدارتی نظام کے حق میں تھے، لیکن اپوزیشن کے دباﺅ میں آکر وہ، پارلیمانی نظام پر راضی ہوگئے ،البتہ انہوں نے، وزیرِ اعظم کی حیثیت سے، تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لئے اور صدرِ مملکت (چودھری فضل الہی) کوکٹھ پُتلی بنا کر رکھا ۔ 4اپریل 1979ءکو۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد، بیگم نُصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے نظر بندی میں رہیں، پھر مُلک سے باہر چلی گئیں۔ بعد ازاں امریکہ نے،بھٹو خواتین کا فوج کے ساتھ N.R.Oکرا دِیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو۔10اپریل 1986ءکو وطن واپس آگئیں۔ صدر جنرل ضیاءالحق کی 17اگست 1988کو ہوائی حادثے میں موت کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم بن گئیں ، لیکن اُنہوں نے صدر جنرل ضیاءالحق کے خلاف جدوجہد میں شریک۔ ”بابائے جمہوریت“۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو صدرِ مملکت منتخب کرانے کا وعدہ فراموش کر دِیا اور جناب غلام اسحق خان کو صدر منتخب کروا دیا۔ یہ بھی ایک طرح کا N.R.O ہی تھا۔ بعد ازاں صدر غلام اسحق خان نے محترمہ کی حکومت بر طرف کر دی۔ اقتدار کے دوسرے دور میںمحترمہ بے نظیر بھٹو نے، پیپلز پارٹی کے سینئر اور مُخلص راہنماﺅں کو نظر انداز کر کے ، سابق بیورو کریٹ اور جاگیردار سردار فاروق احمد خان لغاری کو صدر منتخب کروا دیا۔ لغاری صاحب نے بھی محترمہ کی حکومت بر طرف کر دی۔
2007ءمیں ،امریکہ نے، محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل (ر) پرویز مشرف میں N.R.O کرا دِیا۔ محترمہ وطن واپس آئیں تو انہیں قتل کر دیا گیا۔ جناب آصف علی زرداری نے(جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ،پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا)۔ محترمہ کی ۔”مبینہ وصیت“۔ بر آمد کر کے،خود کو پیپلز پارٹی کا شریک چیئر مین بنا لِیا اور اُس وقت سیاسی طور پر، نا بالغ اپنے بیٹے بلاول زرداری کو۔ ”بلاول بھٹو “۔بنا کر ، پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا۔ یہ بھیN.R.O ہی تھا کہ گریجویٹ ارکانِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی نے،نان گریجویٹ آصف زرداری کو صدرِ پاکستان منتخب کر لیا اور اب وزیرِاعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف اِس بات پر اظہارِ افسوس کر رہے ہیں کہ۔”جب ڈوگر کورٹ نے، نان گریجویٹ آصف علی زرداری کو ،صدرِ پاکستان بنائے جانے کی کلین چِٹ دی تھی تو، ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا“۔بھولے بادشاہو!۔ اُس وقت آپ کے احتجاج نہ کرنے کی وجہ سے، پوری قوم کو اِس کا خمیازہ بھُگتناپڑا ہے۔صدر زرداری نے ، ساڑھے چار سال بعد، لاہور ہائی کورٹ کے حُکم پر ،22مارچ 2013ءکو پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین کا عُہدہ چھوڑا۔بھٹو صاحب ہوتے تو شایدصدارت چھوڑ دیتے، لیکن پارٹی کا عُہدہ نہ چھوڑتے، لیکن اُن کی پارٹی۔(پی۔پی۔پی)۔ نے تو انتخابات میں حِصّہ ہی نہیں لِیا۔یہ تو مخدوم امین فہیم کی پارٹی ہے کہ، اُن کے لئے صدر زرداری کے عُہدہ صدارت کے لئے نظریہءاور ہے اور جناب ممنون حسین کی صدارت کے لئے اور!۔یہی تو۔” بھُٹّو اِزم“۔ کا کمال ہے ۔بائی دی وے یہ ۔” بھُٹّو اِزم“۔ ہے کیا ؟۔
شاید سابق وفاقی وزیرِاطلاعات و نشریات جناب قمر اُلزمان کائرہ کو علم ہو ،جِن کی ۔” گائیکی “۔کے آج کل بہت چر چے ہیں۔Face Book پر کائرہ صاحب پر فلمائی گئی ایک ویڈیو فلم چل رہی ہے ۔کائرہ صاحب کو کسی نجی محفل میں۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کا پنجابی کلام گاتے ہوئے دِکھایا گیا ہے ۔کائرہ صاحب بڑے اعتماد سے گا رہے ہیں اور ۔سُر ۔ میں بھی ہیں۔اگر کائرہ صاحب مجھے اجازت دیں تو، مَیں چودھری محمد سرور کے گلاسگو میں ، شیخ محمد اشرف اور محترمہ راحت زاہد کی ۔”بزمِ شعرو نغمہ “۔ کے زیرِ اہتمام۔(بلا معاوضہ)۔ اُن کے پروگرام کا بندوبست کر سکتا ہوں !۔

مزیدخبریں