واشنگٹن / اسلا م آباد (اے این این) امریکی اخبار”لاس اینجلس ٹائمز“ نے صدرآصف زرداری کوا نتہائی غیر مقبول سربراہ مملکت قراردیتے ہوئے کہاہے کہ زرداری کی غیر مقبولیت پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے جس کی تباہ حالی بڑھتے ہوئے قرضوں، افراط زر، دہشت گردوں کے مستقل حملوں، اور بجلی کی روزانہ کی لوڈ شیڈنگ سے ظاہر ہے تاہم اخبارکے مطابق زرداری اپنے پیچھے ملی جلی نوعیت کا سیاسی ترکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں ا ن کا سیاسی مشکلات میں سے بچ کر نکلنے کا شہرہ ہے، طاقت ور فوج اور فعال سپریم کورٹ کے ساتھ بار بار کے تصادم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں ممنون حسین کے صدر منتخب ہونے پر لکھا ہے کہ قانون سازوں نے وزیراعظم نواز شریف کے وفادار ساتھی کا انتخاب کیا جنہیں 1990 کی دہائی میں وزارت عظمی کے اس سے پہلے کے دور میں انہوں نے سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا ان کا یہ عہدہ اکتوبر 1999 میں ختم ہوگیا تھا، اگرچہ صدر کے عہدے کی اہمیت محض رسمی ہے، لیکن آصف زرداری نے اپنے وقت میں حکومت کے بیشتر اختیارات کا استعمال کیا جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ صدر تھے بلکہ اس لئے کہ وہ حکمران پیپلز پارٹی کے بھی سربراہ تھے اس کے بر عکس نواز شریف جنہوں نے جون کے اوائل میں اقتدار سنبھالا حکمران مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر ہیں سول حکومت میں انہیں سب سے زیادہ اختیار حاصل ہے ان کی پارٹی نے مئی کے انتخابات میں اپنی حریف جماعتوں، پیپلز پارٹی اور کرکٹ سٹار عمران خان کی پارٹی کو شکست فاش دی تھی۔ ان انتخابات میں اس زبردست کامیابی کے بعد، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کافی سے زیادہ ووٹوں کی مدد سے ممنون حسین کی کامیابی یقینی ہوگئی۔ صدر زرداری انتہائی غیر مقبول سربراہ مملکت ہیں جو اپنی اہلیہ اور سابق وزیر اعظم بےنظیربھٹو کے قتل کے بعد قومی حمایت کے بل بوتے پر صدر بنے۔ رپورٹ کے مطابق ان کا سیاسی مشکلات میں سے بچ کر نکلنے کا شہرہ ہے، بالآخر انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ ان کی پہلی سویلین حکومت ہے جس نے اپنی مدت کے پانچ سال پورے کئے اور وہ ایک اور سویلین حکومت کو اقتدار سونپ کر جارہی ہے۔ اس سے پہلے ہر سویلین حکومت یا تو فوجی انقلاب یا پھر سیاسی مداخلت کے باعث کبھی اپنی میعاد پوری نہیں کر سکی ہے۔ جرمن ادارے کی رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری جو اپنے پانچ سالہ دور صدارت کے دوران خاصے غیر مقبول صدر رہے۔ ایک ایسے وقت پر یہ منصب چھوڑ رہے ہیں جب ان کی پیپلز پارٹی بھنور میں گھری دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی مقررہ مدت پوری کرنے والی حکومت کے دوران مخالفین کی تنقید کے باوجود آصف زرداری مقررہ مدت تک منصب صدارت پر فائز رہے۔ انہیں البتہ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان میں عمومی سیاسی رویوں کے برعکس کئی صدارتی اختیارات پارلیمان کو منتقل کئے۔ آصف زرداری نے صدارتی انتخاب کے دوران خود کو دوبارہ امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔ اب صدر کا عہدہ بڑی حد تک علامتی بن چکا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی بے یقینی کی گہرائیوں میں گھری نظر آ رہی ہے۔زرداری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ستمبر 2008ءسے 2013ءتک پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کئی بحرانوں سے نکالا۔ اس ضمن میں فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سیاسی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی اور اپوزیشن کی جانب سے قبل از وقت انتخابات میں عدم دلچسپی بھی اہم عوامل تھے۔پاکستانی دستور کے مطابق صدر مملکت کا عہدہ غیر سیاسی ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری گرچہ پیپلز پارٹی میں کسی باضابطہ کردار کے حامل نہیں تاہم یہ بات زبان زد عام ہے کہ وہی پس پردہ اہم ترین سیاسی محرک رہے ہیں۔ قمر زمان کائرہ کے بقول آصف زرداری عہدہ صدارت سے باقاعدہ طور پر رخصتی کے بعد پارٹی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو لاحق خطرات اور دیگر وجوہات کے سبب زیادہ وقت بیرون ملک گزاریں گے۔ تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی طویل غیر حاضری پیپلز پارٹی کو مزید کمزور کر سکتی ہے جو گزشتہ انتخابی شکست کے بعد خستہ اور منقسم دکھائی دے رہی ہے۔