دو سال قبل نومبر دو ہزار بارہ میں جب نوائے وقت میں میرا پہلا کالم شائع ہوا تو مجید نظامی صاحب نے مجھے فون کیا اور خوب شاباش دی، انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ لکھنے کے سلسلے کو جاری رکھوں۔ وقت نیوز پر کام کرنا میرے لئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا اس دو سال کے دوران میں ایک بالکل نئی اور انوکھی دنیا سے متعارف ہوئی، یہ مجید نظامی کی دنیا تھی اس دنیا کا ٹی وی کے میٹر ریٹنگ سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ نہ اس بھیڑ چال سے جس میں ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جس میں صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ یہاں اس کے برعکس تھا۔ مجید نظامی صاحب پرگراموں کے دوران لڑائی جھگڑے کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے ، یہاں مجھے مکمل ادارتی آزادی حاصل تھی کہ جس موضوع پر چاہے پروگرام کروں اور جسے چاہوں پروگراموں میں بلائوں صرف ان لوگوں کو بلانے سے گریز کرنے کا کہا جاتا تھا جو پروگرام کے دوران قابو سے باہر ہو کر بدتمیزی یا لڑائی جھگڑے پر اتر آئیں۔ آج جب کہ اکثر چینل میں ریٹنگ اور اشتہارات کی دوڑ میں ہر نظریئے اور اصول سے روگرانی کر رہے ہیں وہاں مجید نظامی صاحب کمرشل ازم کے بجائے اصولوں اور نظریات کا علم لے کر کھڑے رہے کوئی آندھی کوئی طوفان انہیں اس سے پیچھے نہ ہٹا سکا، مجید نظامی کی ساری زندگی پاکستان کے لئے وقف تھی انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں عملی حصہ لیا تھا اور پھر گزشتہ سڑسٹھ سال میں اپنی آنکھوں سے حکمرانوں کو قیام پاکستان کے مقاصد کو بھلا کر ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرتے بھی دیکھا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گواہ تھے جس نے پاکستان کی تاریخ کے تمام نشیب و فراز کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا، پاکستان کے حالات دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا اور اس کا عکس ان کے اداریوں میں جھلکتا تھا، ایوب خان کی آمریت سے لے کر جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ تک وہ حق کا علم اٹھائے سر بلند کئے کھڑے رہے۔ نہ کوئی دھمکی نہ کوئی لالچ انہیں اپنے نظریات سے ہٹا سکا، کڑے سے کڑے دور بھی مجید نظامی کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔ وہ آج کے اس دور میں اکبر الہ آبادی کے شعر کی عملی اور جیتی جاگتی تفسیر تھے۔…؎
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ماڈرن ازم اور سیکولر ازم کے اس دور میں جب اسلام کا نام لینا دقیانوسی اور رجعت پسندی سمجھا جاتا ہے مگر مجید نظامی صاحب ساری زندگی پاکستان کے اسلامی تشخص کی بحالی کی جنگ لڑتے رہے۔ وہ ترقی پسندی کے مخالف نہیں تھے مگر اسلام کے نطریات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کے مخالف تھے۔ مگر روادار اتنے تھے کے ان کے ادارے کے دروازے مخالف نطریات رکھنے والوں کے لیے بھی کھلے رہے، اس کی ایک مثال عباس اطہر ہیں جو بائیں بازو اور ترقی پسند صحافیوں کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ مگر نوائے وقت میں وہ ڈپٹی ایڈیٹرنیوز اور رپورٹنگ کی حیثیت سے بڑی آزادی کے ساتھ کام کرتے رہے اور وہ مجید نظامی صاحب کا نام ہمیشہ احترام سے لیتے تھے۔ اسی طرح معروف صحافی نذیر ناجی ہیں جنہوں نے نظامی صاحب کی برداشت اور فراخدلی کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘ میں 80ء کے عشرے کے وسط میں ’’نوائے وقت‘‘ میں آیا، اس طرح ’’نوائے وقت‘‘ سے 12سالہ وابستگی کا دور شروع ہوا۔ لکھنے کی جو آزادی مجھے پہلی مرتبہ حاصل ہوئی‘ اس کی وجہ سے میری کایا ہی پلٹ گئی اور پھر ایسے ایسے کالم لکھے گئے‘ جو میرے لئے ایک نئے اور کامیاب دور کا آغاز ثابت ہوئے۔ نظامی صاحب نے مجھے یہاں تک آزادی دی کہ میرے ایسے کالم جو ان کے سکہ بند نظریات کے خلاف بھی ہوتے‘ وہ شائع کرتے رہے۔ اس کی نمایاں ترین مثال یہ ہے کہ میں نے 1991ء یا 1992ء میں ایک ایسا کالم لکھا‘ جس میں رائے دی گئی تھی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرکے‘ عربوں کی زیادہ مدد کر سکتے ہیں۔ اس پر بہت شور برپا ہوا لیکن نظامی صاحب نے اس معاملے میں مجھ سے بات تک نہیں کی۔ مجید نظامی کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ پاکستان میں نظریاتی صحافت کا آخری بڑا نام تھے۔ بی بی سی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ… ’’سنیچر کی صبح میانی صاحب قبرستان میں جب مجید نظامی کو سپرد خاک کیا گیا تو ان کے ساتھ نصف صدی پر محیط دائیں بازو کی پاکستانی صحافت کے ایک باب کا اختتام ہوگیا۔ ان کی پچاس سالہ صحافت کا مرکز پاکستان کا اسلامی تشخص اور بھارت دشمنی رہا‘‘۔
گزشتہ سڑسٹھ سال پر نگاہ ڈالیں تو لگتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا، نظریئے بدل گئے، خیالات بدل گئے، مفادات بدل گئے مگر مجید نظامی نہ بدلے، کشمیر پر ہمارے حکمران پیچھے ہٹ گئے، ہمارے جنرل ڈر گئے، بھارت سے دوستی کے گُن گائے جانے لگے مگر مجید نظامی نہ بدلے وہ کشمیریوں کی آزادی کے لئے آخری سانسوں تک آواز بلند کرتے رہے اور ببانگ دہل کہتے رہے کہ انہیں کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے دوستی اور تجارت منظور نہیں ہے۔ ان کی ساری زندگی نظریہ پاکستان کے فروغ کے لئے وقف رہی اور اسے پھیلانے کے لیے وہ عملی جدو جہد کرتے رہے انہوں نے نئی نسل میں نظریہ پاکستان کو پھیلانے کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا تھا اس ٹرسٹ میں بچوں کے لئے ایک سمر کیمپ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جہاں بچوں کو پاکستان کے نظریئے اور اس کے قیام کے مقاصد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس کیمپ کا مقصد نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات پر عمل پیرا ہو کر آئندہ زندگی میں ان اصولوں پر کاربند رہے۔
مجید نظامی اور پاکستان لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، پاکستان کے بغیر مجید نظامی کچھ نہیں تو مجید نظامی کے بغیر پاکستان کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مجید نطامی تو رخصت ہو گئے مگر اب ہمیں ایک ایسے پاکستان میں رہنا ہے جو مجید نظامی کے بغیر ہے اور یہی بات میرے لئے سب سے تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ انتشار کے اس دور میں اب ہمیں دور دور تک کوئی مجید نظامی دکھائی نہیں دیتا جو پاکستان کی نظریاتی اساس کے لئے اس طرح ڈٹ کرکھڑا ہو۔ پاکستان کا قیام رمضان کی ستائیسویں شب کی بابرکت گھڑیوں میں ہوا تھا اور یہ کیسا اتفاق ہے کہ جناب مجید نظامی بھی دنیا سے ستائیسویں شب کی رحمت بھری ساعتوں میں رخصت ہوئے۔ کسی نے قائداعظمؒ سے ان کی خواہش پوچھی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میری بس یہی آرزو ہے کہ جب میں خدا کے حضور پیش ہوں تو وہ کہے کہ ویلڈن محمد علی جناحؒ، مجھے یقین ہے کہ جب مجید نظامی صاحب اپنے رب کے حضور پیش ہوئے ہوں گے تو وہاں سے ندا آئی ہو گی کہ ویل ڈن مجید نظامی۔