کراچی : عید پر 26 افراد سمندر میں ڈوب گئے‘ 12 لاپتہ‘ سانحہ مجرمانہ غفلت ہے : وفاقی حکومت

کراچی (کرائم رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) عیدالفطر کے موقع پر سمندر میں نہانے پر پابندی پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا، ہاکس بے اور سی ویو کلفٹن پر سمندر میں نہاتے ہوئے 26 افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ نعشوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔ مرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ عید کے اگلے روز کلفٹن اور ہاکس بے کے ساحل پر پکنک منانے کیلئے ہزاروں افراد پہنچ گئے۔ سمندر میں نہانے کے دوران کلفٹن سی ویو، ہاکس بے اور منوڑہ میں ڈوبنے والے 21 افراد کی نعشیں ورثاء کے حوالے کر دیں جبکہ ڈوبنے والے دیگر افراد کی تلاش کیلئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ نعشیں ورثاء کے حوالے کرنے کے موقع پر انتہائی رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے اور جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء میں عید کے روز صف ماتم بچھ گئی۔ ساحل سمندر پر بڑے سانحے کے بعد پولیس اور رینجرز نے ساحل سمندر جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے لوگوں کا سمندر کی طرف جانا بند کر دیا۔ نعشوں کی تلاش میں سیاسی تنظیموں کے رضاکاروں کے علاوہ نیوی کے ہیلی کاپٹر کی مدد بھی لی گئی۔ ڈوب کر جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق شہر کے مختلف علاقوں سے تھا۔ مذکورہ علاقوں میں نعشیں پہنچنے پر سوگ کی کیفیت رہی جبکہ مرنے والوں کے گھروں پر کہرام مچ گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت 12 افراد لاپتہ ہیں جن میں مجاہد مجیب اشرف، عمران، ساجد حسین، فضل الرحمان، شفیق اللہ، زرمین، جنید گلگتی، غلام، نور محمد اور شیراز خان شامل ہیں۔ کراچی میں عیدالفطر کے موقع پر سمندر میں نہانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ جون میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق دفعہ 144 کے تحت سمندر میں نہانے پر پابندی 17 جولائی کو ختم کر دی گئی تھی۔ عیدالفطر پر سانحہ سی ویو کے بعد حکام خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور سانحے کے اگلے روز جمعرات کو سمندر میں نہانے پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے افراد کی نعشوں کی حوالگی کیلئے عرض رشوت لینے والے پولیس انسپکٹر الطاف کو معطل کر دیا گیا ہے۔ انسپکٹر الطاف جناح ہسپتال میں ڈیوٹی کے دوران نعشیں ورثاء کے سپرد کرنے کے عول ڈیڑھ ہزار روپے رشوت طلب کر رہا تھا۔ سانحہ سی ویو کے بعد پولیس کی جانب سے سمندر کی طرف جانے سے روکنے والے افراد کے لواحقین نے احتجاج کیا اور خیابان شمشیر پر سی وی کے نزدیک سڑک پر دھرنا دینے کے علاوہ ٹائر جلائے۔ اس موقع پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ آن لائن کے مطابق ساحل پر تفریح کیلئے آنے والے کئی شہریوں کی قیمتی جانیں سمندر کی نذر ہو گئیں لیکن اس حادثے نے حکومت سندھ اور میونسپل سروسز کی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کا پول کھول دیا۔ آئی این پی کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت کو واقعہ کی انکوائری اور مستقبل کیلئے حفاظتی اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے واقعہ قومی سانحہ ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی کی سربراہی میں سانحہ سی ویو پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی۔ کمیٹی میں ڈی آئی جی سائوتھ، ڈی آئی جی ایسٹ اور ایس ایس پی سکیورٹی بھی شامل ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی 24 گھنٹے میں رپورٹ آئی جی سندھ کو پیش کرے گی جبکہ آئی جی سندھ نے ڈی ایس پی درخشاں کو عہدے سے ہٹا دیا ہے اور ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔ مزید براں اندھیرے کے باعث ریسکیو آپریشن روک دیا گیا ہے اور سی ویو کو شہریوں کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 3 افراد بھی شامل ہیں۔ نعشوں کو پاکستان نیوی اور ایدھی فائونڈیشن کے رضاکاروں نے مشترکہ آپریشن کے دوران تلاش کیا۔ ثناء نیوز کے مطابق اپنے پیاروں کی تلاش کیلئے آنیوالے شہریوں کی بڑی تعداد ساحل سمندر پر موجود رہی۔ عید کے دوسرے روز سمندر کی سیر موت کا پیغام بن گئی۔ اندھیرے کے باعث روکا گیا آپریشن جمعرات کی صبح دوبارہ شروع کیا گیا، نیوی ہیلی کاپٹر بھی آپریشن میں شریک رہے، کوسٹ گارڈ کی ٹیمیں بھی نعشیں تلاش کرتی رہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے واقعہ سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ بی بی سی کے مطابق ہلاکتوں کے باوجود جمعرات کو بھی سینکڑوں لوگ ساحل پہنچے جہاں سمندر میں تیرنے کی اجازت نہ ملنے پر ان کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ ایک پولیس اہلکار فہد علی نے اے ایف پی کو بتایا یہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ہم نعشیں نکال رہے ہیں اور پھر بھی یہ ہم سے لڑ رہے ہیں وہ سمندر میں جا کر تیرنا چاہتے ہیں۔ یہ بیوقوفی کی انتہا ہے۔ کراچی میں عید کے دوسرے روز ہزاروں افراد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سمندر کے ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آئے تھے۔ این این آئی کے مطابق  عید الفطر کے موقع پر سمندر میں نہانے پر پابندی پر عملدرآمد نہ ہونے اور شہری حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ساحل سمندر پر ایک گھنٹے کے دوران تفریح کے لئے آنے والے 25 افراد ڈوب گئے۔ سی ویو پر لاپتہ ہونے والے افراد کی تلاش کا کام سست روی سے ہونے پر ڈوبنے والے افراد کے رشتہ داروں نے ہنگامہ بھی کیا۔ ہاکس بے سے ایمرجنسی رسپانس سینٹر کے انچارج محمد معراج نے بتایا کہ کے ایم سی کے ساحل سمندر میں 50 غوطہ ڈیوٹی پر تھے تاہم 144 کے نفاذ کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد سمندر میں نہا رہی تھی۔ نارووال سے نامہ نگار کے مطابق عید کے روز دریائے راوی میں ککے روڈ پر 30 سالہ حافظ محمد ظہیر دوستوں کے ساتھ نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ ریسکیو 1122 نے آدھہ گھنٹے کے آپریشن کے بعد ان کی نعش نکالی۔ آئی این پی کے مطابق حیدر آباد میں المنظر کے مقام پر پکنک منانے آنے والے دو نوجوان نہاتے ہوئے دریائے سندھ میں ڈوب گئے۔ آئی این پی کے مطابق  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں سی ویو پر نہانے کے دوران 25 افر اد کی ڈوب کر جاں بحق ہونے پر شدید دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے عید پر مناسب انتظامات نہ کئے جانے اور جاںبحق افراد کے لواحقین سے میتوں کی حوالگی کیلئے پولیس کے رشوت لینے پر سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کر لی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے ایک روز میں اتنی بڑی تعداد میں سمندر میں نہانے کے دوران ہونے والی اموات کو انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بارے میں صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعظم نے کہا انتظامیہ کو سی ویو پر مناسب انتظامات کرنا چاہئیں تھے۔ وزیر اعظم  نے ذمہ دار حکام کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔ ذرائع کے مطابق و زیر اعظم نے میڈیا کی ان رپورٹس کا بھی سخت نوٹس لیا ہے کہ پولیس نے جاں بحق ہونے والے افراد سے نعشوںکی حوالگی کیلئے رشوت طلب کی۔ اے پی پی کے مطابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کراچی میں پیش آنے والے سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سندھ کو ہدایت کی ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے مجرمانہ غفلت کی تحقیقات کرائی جائے۔ ثنا نیوز کے مطابق وزیرداخلہ نے کراچی کا سانحہ مجرمانہ غفلت ہے اور اس غفلت کے مرتکب افراد کو سخت سزا دی جائے۔ لاہور سے خصوصی رپورٹر کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کراچی کے ساحل سمندر پر ڈوبنے کے باعث قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے افسوسناک واقعہ میں جاں بحق ہونے والے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کیا اور کہا پنجاب حکومت اور پنجاب کے عوام اس المناک واقعہ میں سوگوار خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ خصوصی نامہ نگار کے مطابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سمندر میں دو درجن سے زائد افراد کے ڈوب کر جاں بحق ہونے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کراچی ساحل سمندر پر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع حکومت کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ واقعہ حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اندوہناک سانحہ نے عید کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا۔ شیخوپورہ سے نامہ نگار خصوصی کے مطابق مرو کے روز بھی ایک نوجوان لاہور روڈ نہر اپر چناب میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا جس کی نعش کی تلاش رات گئے تک جاری تھی جبکہ عید کے روزبھی ایک نوجوان منیر افتخار اسی نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ سرائے مغل سے نامہ نگار کے مطابق عید کے تیسرے روز ہیڈبلوکی دریائے راوی میں نہاتے ہوئے ایک نوجوان ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ سمندری کا رہائشی سجاول ولد طفیل بٹ دریائے راوی میں نہاتے ہوئے تیز لہروں کی زد میں آ گیا۔ تلاش کے باوجود ابھی تک اسکی نعش نہیں مل سکی۔  وہاڑی سے نامہ نگار کے مطابق  عید پر پکنک منانے کیلئے جانے والے چار نوجوان دریائے ستلج میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ نواحی گائوں 168 /EB کا رہائشی 17 سالہ احمد حسن ہیڈ اسلام کے مقام پر عید کے دوسرے روز نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ جبکہ عید کے تیسرے روز موضع حسن شاہ کے مقام پر دریائے ستلج میں پکنک منانے کے لئے جانے والے تین دوست 18 سالہ محمد شفیق، 16 سالہ محمد ناصر اور 18 سالہ راشد ولد اللہ رکھا دریا میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے۔ تینوں دوست آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔
کراچی ؍ سمندر

ای پیپر دی نیشن