اسلام آباد، افغان کچی بستی میں آپریشن جاری: قومی اسمبلی، اپوزیشن کا شدید احتجاج

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ ایجنسیاں) اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں سی ڈی اے کی جانب سے غیر قانونی افغان کچی بستی گرانے کا عمل دوسرے روز بھی جاری رہا جبکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں کچی بستی گرانے کیخلاف شدید احتجاج کیا۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور فاٹا کے ارکان نے واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ادھر پولیس نے کچی آبادی کے خلاف آپریشن کے دوران حراست میں لئے گئے 66 افراد کا انسداد دہشتگردی کی عدالت سے 4 اگست تک ریمانڈ لے لیا۔ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ واقعہ میں دو ہزار افراد شریک تھے جنہوں نے اسلحہ کا استعمال بھی کیا۔ حکومت نے ارکان کو کچی آبادی کے متعلق آپریشن بارے اعتماد میں لیتے ہوئے یقین دلایا کہ آپریشن پختونوں کے خلاف نہیں‘ تمام کارروائی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل کی جائے گی۔ قبل ازیں شیریں مزاری‘ عارف علوی‘ صاحبزادہ طارق اﷲ‘ شیر اکبر‘ عبدالقہار و دیگر ارکان نے کچی آبادی کے خلاف اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کے مشترکہ آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غریب عوام کو چھت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے زبردستی لوگوں کو گھروں سے بے دخل کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ شیخ آفتاب نے جواب میں کہا کہ اسلام آباد میں بعض کچی آبادیوں کو قانونی قرار دیا گیا۔ سی ڈی اے کی پرامن طور پر کچی آبادیاں ختم کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد آپریشن کیا گیا۔ یہ آپریشن پختونوں کے خلاف نہیں حکومت انکوائری کرانے کے لئے تیار ہے انکوائری رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔ ملک ابرار نے کہا کہ حکومت نے قانونی الاٹیوں کو قبضہ دلانا ہے اس علاقے میں غیر قانونی افغان آباد تھے علاقہ جرائم کا گڑھ بن چکا تھا جرائم میں کمی واقعہ ہو گی۔ شیریں مزاری نے کہا کہ غریبوں پر بلڈوزر چلانا غریب دشمنی ہے۔ پی پی پی کے عمران ظفر لغاری نے کہا کہ ملا عمر کی ہلاکت پر ایوان میں پالیسی بیان دیا جائے۔ عبدالقہار نے کہا کہ تمام پختونوں کے شجرہ نسب میں قوم افغان لکھا جاتا ہے اس لئے تمام پختون افغان ہیں اس لئے افغان مہاجرین کو افغان نہ کہا جائے۔ ساجد احمد نے کہا کہ کراچی میں بھی افغان بستیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عارف علوی نے کہا کہ پاکستان میں صرف غریبوں کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے غریب عوام کے لئے کوئی بستی موجود نہیں۔ وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمن نے نفیسہ عنایت اللہ کے سوال پر بتایا ہے کہ حکومت مصنوعات کی لاگت کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے، کوشش ہے کہ خام کپاس کی برآمد کی بجائے زیادہ سے زیادہ ویلیو ایڈیشن کے بعد مصنوعات برآمد کی جائیں۔ مالی سال 2013-14ء کے لئے متحدہ عرب امارات کے لئے پاکستانی برآمدات 17 لاکھ امریکی ڈالر ہیں جو 6.8 فیصد بنتا ہے، پولٹری مصنوعات کی برآمد پر پابندی ہے۔ بلیغ الرحمن نے بتایا کہ بجٹ میں برآمدات بڑھانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں، 7 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات 4 ارب ڈالر کا خام تیل، ڈیڑھ ارب ڈالر کی پلاسٹک پراڈکٹس درآمد کرتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری سردار محمد شفقت حیات نے کہا ہے کہ کویت کی جانب سے پانچ دیگر ممالک سمیت پاکستانی تارکین وطن کے رشتہ داروں کو ویزہ کا اجراء نہیں کیا جا رہا جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ یہ معاملہ سپیکر کی سطح پر کویت کے ساتھ اٹھایا گیا توقع ہے یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ سردار محمد شفقت حیات نے بتایا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں اس وقت تقریباً 38 لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے کویت کے وزیراعظم کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا۔ کویت نے اس وقت وہاں رہائش پذیر پاکستانیوں کے ویزوں کی تجدید نہیں روکی تاہم دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانیوں کو اپنے رشتہ داروں کو بلانے کی اجازت لینا ضروری ہے، پاکستان کے علاوہ ایران، عراق، افغانستان، یمن اور شام کے شہریوں پر بھی یہی پابندی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں اور خواتین سے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات لے کر ایوان میں پیش کریں۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے ہائوسنگ نے کہا ہے کہ بہارہ کہو ہائوسنگ سکیم کیلئے 18000 کنال زمین حاصل کی گئی جبکہ پلاٹوں کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں ہو گا۔ ایوان میں ساتویں مالی ایوارڈ سمیت دو رپورٹس پیش کر دیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...