گزشتہ چند دہائیوں سے پورا عالم اسلام خصوصاً وطن عزیز پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ اس دوران لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ معیشت تباہ اور قیمتی اثاثے برباد ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ مساجد اور عبادت گاہیں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ معائدین کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کے مواقع میسر آ گئے ہیں، جس سے اسلام کی اشاعت اور فروغ کو بھی سخت دھچکا لگا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ پاکستانی افواج اپنے نڈر اور جری سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹ رہی ہیں۔ ضرب عضب کی مہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب فوج ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے بھی پر عزم دکھائی دیتی ہے۔ سہولت کاروں میں وہ لوگ شامل ہیں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ، ہیں اور انکی مالی اور اخلاقی مدد کرتے ہیں۔ ان سہولت کاروں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ اس سہولت کاری اور مالی امداد کو کار خیر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے طبقہ فکر کے بعض علما اور سیاسی رہنما ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو جہاد قرار دیتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کی بھرپور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکا۔ دہشت گردی ایک سوچ کا نام ہے۔ اور اس سوچ کو ختم کرنے کیلئے علمی اور فکری سطح پر شدید ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کا درد مند طبقہ روزاول سے اس بارے میں فکر مند ہے، اور وہ اہل علم و دانش کی طرف سے اس حوالے سے فکری اور علمی ضرب کا منتظر رہا ہے۔ اس پر میں نے بھی اپنے بعض کالموں میں توجہ دلائی ہے کہ دہشت گردی کا علمی اور فکری سطح پر مقابلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس بارے میں چند ایک فتوئوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر کاوش نظر نہیں آتی تھی۔ گذشتہ ماہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لندن میں ہونے والی ایک تقریب کی خبر امید کی کرن بن کر سامنے آئی۔ جس میں دہشت گردی کیخلاف ہر طبقہ فکر کے لیے انگریزی میں نصابی کتب کا تعارف کروایا گیا تھا۔ لیکن اس نصاب کے بارے میں کوئی تفصیلات نہ مل سکیں۔ میں پاکستانی میڈیا سے توقع رکھتی تھی کہ وہ اس سلسلے میں عوام کو با خبر رکھنے کیلئے ضرور متحرک ہو گا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا کو دہشت گردی کی چکی میں پسنے والی مظلوم قوم کیلئے اس نصاب کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارا میڈیا خون میں لت پت لاشوں ، تڑپتے جسموں، اڑتی عمارتوں، جلتے عبادت خانوں اور روتے ہوئے یتیموں اور بیوائوں کو تو سکرین پر دکھا سکتا ہے، لیکن اس دہشت گردی میں کار فرما فکر پر کاری ضرب لگانے والے نصاب کے بارے میں قوم کو آگاہ نہیں کر سکتا۔ تباہ حال قوم کو انٹرٹینمنٹ کی بجائے علمی اور فکری سطح پر دہشت گردی کے خلاف مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا میڈیا لوگوں کی ذہن سازی اور اس فکری جہاد میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 29اگست کو اسلام آباد میں مذکورہ بالا نصاب کی اردو ورشن کی تقریب رونمائی ہوئی ،جس کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ علما ء اور اہل فکرو دانش کے ذمہ اس قرض کو ادا کرنیوالی شخصیت پاکستان کے نامور دینی سکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔ دہشت گردی کا علمی اور فکری سطح پر مقابلہ کرنے کیلئے جن کی اردو، انگریزی اور عربی میں 22کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ حالیہ نصابی کتب ہر طبقہ فکر کیلئے مرتب کی گئی ہیں۔ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا یہ نصاب سول سوسائٹی، ریاستی اور سول اداروں کے افسروں اور جوانوں کیلئے اساتذہ، وکلا اور دیگر دانشور طبقات کیلئے‘ آئمہ، خطبا اور علماء کرام اور طلبہ اور طالبات کیلئے ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس تاریخی کارنامہ کی بنا پر پوری ملت اسلامیہ خصوصاً اہل پاکستان کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست اور طریقہ کار سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ملت اسلامیہ کیلئے ان کی اس کاوش کا اعتراف نہ کرنا نا انصافی اور بخل قرار پائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف فوج کی قابل تحسین ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی ان نصابی کتابوں کی ذریعہ ضرب علم نے دہشت گردی کی جڑوں پر کاری وار کیا ہے۔ میں نے ان نصابی کتب کابغور مطالعہ کیا ہے یہ کتابیں سیاسی اور مسلکی تعصبات سے یکسر پاک ہیں ،اور قرآن و سنت کی متفقہ تعبیرات پر مشتمل ہیں۔ جس میں مئولف کی ذاتی آرا شامل نہیں اس لیے میں ان کتب کو یونیورسٹی، کالجز اور دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جانا ضروری سمجھتی ہوں۔ دہشت گردی میں کار فرما سوچ کی حوصلہ شکنی کیلئے سول سوسائٹی کے تمام طبقات کو بھی از خود یہ کتابیں حاصل کر کے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں کسی مصلحت کے تحت میڈیا یا کوئی دوسرا ادارہ مئولف کا نام لینا مناسب نہ سمجھے تو اسے اس نصاب کے مندرجات سے عوام کو با خبر کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ صرف فوج کا فریضہ نہیں بلکہ ملک کے ہر ادارے اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس سے یقینا دہشت گردی کی سوچ کو ختم کرنے اور امن کو فروغ دینے میں مدد ملنے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کا امیج بھی بہتر ہو گا۔ یہ سب اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہمارے پالیسی ساز ادارے اور ہمارا میڈیا تمام تعصبات اور مفادات سے بالا تر ہو کرقوم کے مجموعی مفاد کے پیش نظر اس نصاب کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ لیں گے۔