خواجہ حیدر علی آتش کا شعر’’بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ٗجو چیراتو اک قطرہ خوں نہ نکلا ‘ انتخابات 2013ء پرکھنے کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن کی منظر عام پر آنے والی معصوم رپورٹ کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔اس رپورٹ سے کس کو کیا ملا اور کس نے کیا کھویا ٗ اس بحث میں پڑے بغیر یہ تو طے ہے کہ اس کا نزول کیا ہوا ٗکپتان پچھلے قدموں پر چلے گئے ہیں۔ کل تک ملک کو تبدیلی کے حجلہ عروسی کی زینت بنانے کے خواہشمند تحریک انصاف کے دولہا اور ڈی جے بٹ کی خوب صورت دھنوںوالے نغموں پر محو رقص براتیوں کو آج لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ کہاں توکنٹینر پرکھڑے ہو کر ایک بال پر دو دو وکٹیں گرانے کی پھبتیاںکسنا ٗپورا نظام تلپٹ کرنے کی باتیںکرنا ٗ حکومت کواٹھا کر پٹخنے کے دعوے کرنا ٗ وزیراعظم کو چٹکی میں چلتا کرنے کی بڑھکیں مارنا اور حقیقت تو یہ ہے کہ’’مسٹر کلین مین‘‘ میاں صاحب کی ایک ہی گگلی پر کلین بولڈ ہو کر پویلین لوٹ آئے ہیں۔ اور اب اسمبلیوں میں اپنی نشستیں بچانے کے لئے کپتان اینڈ کمپنی ٗ وزیراعظم میاں نواز شریف کے رحم وکرم پردکھائی دیتی ہے۔ دھرنا دھمال میں کپتان نے جس پارلیمان پر دھاوا بول کرتاج وتخت اپنی ٹھوکروں میں گرانے کی ٹھانی تھی اب اسی پارلیمان میں جانے کے لئے وہ پانی سے زیادہ پتلے ہو رہے ہیں۔
اگرخدانخواستہ انہیں اسمبلیوں کی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تو وہ خالی ہاتھ کھڑے ہوں گے ٗ جیسے الیکشن 2013ء سے پہلے وہ خالی ہاتھ تھے مگر اب جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد وہ صرف خالی ہاتھ ہی نہیں بلکہ اپنی کوتاہیوں پر ہاتھ ملتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔کپتان نے پہلی بار جارحانہ رویہ ترک کر کے اسی فرسودہ نظام میں رہ کر سیاست کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ انہوں نے ’’کھلے دل‘‘ سے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو قبول کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے۔ انہوں نے نشستوں سے محروم ہونے کی صورت میں ضمنی انتخابات میں جانے کا بھی اشارہ دیا ہے لیکن حکومت اتنی نادان نہیں کہ انہیں نشستوں سے محروم کر کے کپتان کو ایک اور پاور پلے کھیلنے کے لئے دوبارہ سڑکوں پر دھکیل دے اور کپتان اپنی اسٹریٹ پاور بروئے کار لاتے ہوئے حکومت کوبیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیں۔ حکومت ایک غیر معمولی بحران سے بمشکل بچ نکلی ہے ٗ اب وہ کسی نئے محاذ کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ قومی اور صوبائی کی لگ بھگ سو نشستوں پر ضمنی انتخاب حکومت کو مسائل کی ایک نئی جنگ میں جھونک سکتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کسی تھانیدار کی لکھی ہوئی روداد ہے یاججوں کا دیا ہوامیثاق ِ نظریہ ضرورت ٗ بات اب انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والی موشگافیوں سے ذرا آگے نکل گئی ہے ٗ اب نظریہ ضرورت ٗکسی کی ضرورت نہیں رہا ٗاٹھارہویں ترمیم کے بعد اب نظریہ سیاست منصہ شہود پر آگیا ہے۔ جس میں میاں صاحب کی سیاست کا طوطی بول رہا ہے۔نواز شریف دھرنوں کے بعد بڑی محتاط اور کامیاب سیاست کررہے ہیں ٗ اشرافیہ سے ان کی معاملہ فہمی ان کے پانچ سالہ دور اقتدار کو محفوظ بنانے کا وسیلہ بنتی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی ان کے جاوید ہاشمی اور جہانگیر ترین نما لوگ انہیں کسی نئی آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں لیکن وہ راہ کی کٹھنائیوں سے آگاہ ہیںاورانہیں کانٹوں بھری راہ پر چلنے کا سلیقہ بھی آگیا ہے۔ جہاں تک کپتان کا معاملہ ہے ٗ اسمبلیوں کی نشستوں سے محروم نہ بھی ہوں ٗ اب جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد وہ 2013ء سے پہلے کی پوزیشن پر چلے گئے ہیںلیکن اس وقت ان کے پاس خواب تھے ٗ امیدیں تھیں اور آسرے تھے مگر اب ان کے دامن میں مایوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سیاست میں نادانیوں کی گنجائش نہیں ہوتی ٗ کپتان نے غلطیاں تسلیم کی ہیں تو انہیں ان غلطیوں کی قیمت بھی چکانا ہو گی۔ اس سے بڑی قیمت کیا ہو گی کہ کل تک وہ اشرافیہ کی آنکھ کا تارا تھے ٗ آج بے یارومددگار ہیں اور اپنی سیاسی بقا کے لئے اسی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں جس کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے انہوں نے ایک سال تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔
کپتان نے کھیل کے میدان میں اچھی منصوبہ بندی کر کے ہمیشہ پاکستان کو سرخرو کیا لیکن سیاسی میچ کی منصوبہ بندی میں وہ گروگھنٹالوں کے مقابلے پر مات کھا گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کی حکمت عملی کے نقائص کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ انہیں احساس ہونا چاہئے کہ ان کی عاجلانہ اور غیر ضروری جارحانہ سیاست سے ملک کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ بہادر آدمی قدرے نادان ہوتا ہے ٗکپتان کی نادانیوں نے انہیں پہلے رائونڈ میں ہزیمت کا شکار کردیا ہے لیکن کھیل ابھی باقی ہے ٗ خیبر پی کے ان کے ہاتھ میں ہے ٗکپتان وہاں غیرمعمولی کام کرکے اور اپنی خامیوں پر قابو پا کر سیاسی میچ میں دوبارہ آسکتے ہیں ۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان جیسا سادہ آدمی ایک مضبوط جال میں جکڑا جا چکا ہے۔اس کے ارد گرد موجود خود غرض وڈیرے ٗسردار اور خان نہ تو عوام سے مخلص ہیںاور نہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وفاداری بشرط استواری کا عہد نبھاتے ہیں ۔’’ چلو تم ادھر کو ہو ا ہو جدھر کی ‘‘کے اسوہ پر چلنے والے یہ بڑے بڑے خاندانوں کے چشم و چراغ کبھی کسی کا گھر روشن کرتے ہیں تواگلے موسم میں کسی اور کے آنگن کا اجالابن جاتے ہیں۔ کپتان کو کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنی سیاست کرنی ہو گی ٗ خالصتاًعام آدمی کی سیاست ٗ ورنہ پاکستان کی سیاست میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔