سردار محمد ابراہیم ایک عہد ساز شخصیت

جس طرح پاکستان میں تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح کی حیثیت اور تاریخی مقام ہے بلامبالغہ تحریک آزادی کشمیر1947ءکے حوالے سے اور خطہ آزاد کشمیر کی آزادی کے حوالے سے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کا بھی تاریخی مقام اور حیثیت ہے آپ31جولائی 2003ءہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے تھے۔ آپ کی ہر سال کشمیری قوم برسی مناتی ہے اور آپ کی خدمات کے حوالے سے خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں آپ کی خدمات تاریخی ہیں اور تاریخ کشمیر کا سنہری حصہ ہے، آپ کی خدمات اور حالات زندگی کا جب جائزہ لیتے ہیں تو آپ کی شخصیت میں منفرد خصوصیات نظر آتی ہیں۔ غیر معمولی صلاحیتوں سے اللہ نے نواز رکھا تھا۔ آپ 22اپریل1915ءگاﺅں ہورنہ میرہ تھے ناکوٹ راولا کوٹ میں پیدا ہوئے والد سردار محمد عالم خان علاقے کے نامور شخص تھے۔ آپ کی پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مڈل تک راولا کوٹ میٹرک وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول پونچھ اور گریجوایشن اسلامیہ کالج لاہور سے کی۔ حصول تعلیم کے دوران ہر کلاس اور ہر تعلیمی ادارے میں قابلیت کی بنیاد پر آپ کو وطیفہ ملتا رہا۔1937ءمیں اسلامیہ کالج لاہور گریجوایشن سطح پر قابلیت کی بنیاد پر کام ماہانہ 25روپے وظیفہ دیتا تھا اسی طرح پونچھ کے ہائی سکول میں بھی وظیفہ ملتا تھا۔ لاہور مرحوم محمد حبیب خان جنرل رحیم خان کے بھائی کلاس فیلو تھے۔1938ءواعلیٰ تعلیم کیلئے آپ برطانیہ روانہ ہوگئے۔ ایل ایل بی کا امتحان لندن یونیورسٹی اور باریٹ لاءکی ڈگری اعلیٰ نمبروں کے ساتھ لنکن اِن سے حاصل کی۔1942ءواپس وطن آئے قابلیت کی بنیاد پر ڈوگرہ حکومت نے آپ کو پہلے پراسیکوٹر میر پور میں پھر ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیا۔ اسی دوران آپ کی شادی راولا کوٹ کی ایک مشہور مذہبی شخصیت حاجی محمد قاسم خان کی بیٹی سے ہوئی۔ چودھری غلام عباس اور دیگر ہمدرد رفقاءکے مشورے پر آپ نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیدیا۔ تحریک آزادی کشمیر میں سرگرم ہوئے اور 1946ءمیں میدان سیاست میں آ گئے۔ بابائے پونچھ نے اپنی جگہ کشمیر اسمبلی کی نشست پونچھ باغ وسدھنوتی سے بھاری اکثریت سے فروری 1947ءمیں ممبر اسمبلی منتخب کرا لیا۔ اس وقت آپ کی عمر31سال تھی۔ تحریک آزاد کشمیر میں تیزی آ رہی تھی قیام پاکستان کی منزل قریب آ رہی تھی۔ دو قومی نظریئے سے متاثر ہو کر کشمیری مسلمان بھی آزادی کشمیر کیلئے قربانیاں دے رہے تھے۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت بزور طاقت تحریک کو دہانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جگہ جگہ دفعہ 144 کا نفاذ جلسے جلوسوں پر پابندی گرفتاریاں شروع تھیں کشمیریوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس کی فرنٹ لائن کی قیادت جن میں غلام عباس شامل تھے جیل میں تھے، بدقسمتی کہ شیخ عبداللہ اور میرواعظ یوسف شاہ جیسے بڑے لیڈر پاکستان مخالف کانگرس کے حامی بن چکے تھے۔ مسلم کانفرنس کا اہم اجلاس غازی ملت نے اپنے گھر بلا کر 19جولائی 1947ءقرارداد الحاق پاکستان منظور کرائی تھی۔ اس اجلاس کیلئے جگہ نہیں مل رہی تھی خوف وہراس تھا، غازی ملت نے اپنے بیوی بچوں کو خفیہ مقام منتقل کرکے یہاں اجلاس منعقد کرایا پھر حلف بھی لیا گیا کہ اگر مہاراجہ نے 15اگست 1947 تک پاکستان سے الحاق نہ کیا تو ہم مسلح بغاوت کریں گے مہاراجہ نے پاکستان کے بجائے بھارت سے جب الحاق کا ڈھونگ رچایا تو اسی حلف کی روشنی میں پونچھ، سدھنوتی، باغ وغیرہ سے جہاد آزادی کا آغاز کردیا گیا۔ سرینگر میں پھر ایک اجلاس مسلم کانفرنس کا ہوا جس میں بدلتی صورتحال کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ غازی ملت خفیہ طریقے سے یہاں سے نکل کر پونچھ پہنچیں اور وہاں جا کر جہاد آزادی کو منظم کریں۔25اگست 1947ءغازی ملت گرفتاری سے بچتے ہوئے چونکہ ان کے وارنٹ گرفتاری تھے۔ بیوی بچے کو سرینگر ہی چھوڑ کر رات کے وقت مظفر آباد کے راجہ عبدالحمید خان اور سلطان حسن علی کی مدد سے سرینگر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ راجہ عبدالحمید محترمہ نورین عارف کے والد تھے۔ غازی ملت مظفر آباد ، ایبٹ آباد اور پھر مری پہنچے یہاں ایک ہوٹل میں اپنا خفیہ ہیڈ کوارٹر بنایا۔ یہاں خطہ پونچھ باغ سدھنوتی کوٹلی میرپور مظفر آباد سے سرگرم قائدین کو بلایا ایک وار کونسل بنائی، بیک وقت سارے علاقے میں جہاد شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ خطے کو سیکٹرز اور سب سیکٹر میں تقسیم کرکے سیکٹر کمانڈر اور نائب کمانڈر مقرر کئے پھر خود صوبہ سرحد پنجاب اور دیگر علاقوں سے جنگی سازو سامان کے حصول میں لگ گئے اور تیزی سے جنگی ہتھیار پہنچانا شروع کر دیئے۔ پاکستان کی اہم شخصیت سے ملکر اخلاقی اور فوجی حمایت حاصل کی۔ آزاد کشمیر کے علاقوں سے برٹش آرمی سے واپس آئے، مختلف رینکس کے لوگ میدا جہاد میں جوش و جذبے سے نکلے، مختصر سے وقت میں7بریگیڈ فوج کھڑی کردی گی۔ بغیر تنخواہ کے7بریگیڈ فوج بڑے ہی منظم انداز میں ڈوگرہ فوج سے برسرپیکار ہو کر سرخرو ہوئی تقریباً تین ہزار مجاہدین شہید ہوئے اور ڈوگرہ فوج کو یہاں سے مار بھگا کر 24اکتوبر 1947ءراڈ کھل کے نزدیک جونجال ہل میں دارالحکومت قائم کرکے آزاد حکومت بن گی۔ پلندری بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان کی سرپرستی میں وار کونسل کے اجلاس میں غازی ملت سردار احمد ابراہیم خان آزاد حکومت کا بانی صدر بنائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ یوں آزادی کے بیس کیمپ میں غازی ملت نے انقلابی حکومت کی بنیاد رکھی۔3سال بعد دارالحکومت کو غازی ملت نے اسی لئے مظفر آباد منتقل کیا کہ یہاں سے سرینگر نزدیک ہے اور ہماری منزل سرینگر ہے ہم نے مکمل کشمیر آزاد کرانا ہے۔ آزاد کشمیر کی بانی حکومت کی حیثیت میں آپ نے آزاد کشمیر کی اپنی فوج نے نیا آرمی چیف، وزیر دفاع اور اپنا جی ایچ کیو قائم کیا۔ اسی طرح آزاد کشمیر کا دارالحکومت جھنڈا، سپریم و ہائیکورٹس، پولیس اور دیگر تمام تر محکمے قائم کیے۔ بدقسمتی سے جلد ہی حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر نے ایسی سرگرمیاں شروع کر دیں کہ بیس کیمپ مظفر آباد میں حصول اقتدار کا ایسا کھیل تماشہ شروع ہوا کہ ہم سب جہاد آزادی بھول گئے۔ آپ کو کلام اقبال سے بڑی دلچسپی تھی۔ عاشق رسول تھے، وفات سے 15سال پہلے اپنی قبر بنوائی تھی اور روزانہ اپنی قبر جا کر دیکھتے تھے۔ آپ نے مسلم کانفرنس، نظام اسلام پارٹی، آزاد مسلم کانفرنس، پاکستان پیپلزپارٹی اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی سے وابستہ رہ کر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ آپ نے زندگی میں تین مشہور کتب تحریر فرمائیں ان میں متاع زندگی، کشمیر کی جنگ آزادی، اور کشمیر ساگا شامل ہیں، آپ وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوری نظام کی کامیابی میں سرگرم عمل رہے، فوجی آمریت کی کبھی بھی حمایت نہیں کی۔ میں1977ءمیں ڈگری کالج باغ بی اے کا طالب علم تھا، اس دور سے وفات تک غازی ملت کے ساتھ تعلق اور رابطہ رہا، مرحوم سردار صاحب کے ساتھ ملاقاتوں کے یادگار لمحات ناقابل فراموش ہیں۔

پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی

ای پیپر دی نیشن

’’پاکستان تحریک احتجاج‘‘

آواز خلق فاطمہ ردا غوری  زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء ...