حسن ابد ال میں اقبالؒ،نظریہ پاکستان کی گونج

Aug 01, 2017

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم برصغیر میں کئی قد آور شخصیات کا حصہ شامل ہے لیکن اسے پاکستان کی بد قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ سوائے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے باقی تمام یا تو سامراجی تسلط کی سلامتی چاہتے تھے یا متحدہ ہندوستان کی ۔ یہاں تک کے مولانا ابو الکلام آزاد جیسی شخصیت بھی قیام پاکستان کے مخالف رہی ۔ تحریک آزادی ِ پاکستان کو قائد اور علامہ کے سوا کوئی ایسا نہ مل سکا جو تن من دھن کی بازی لگا کر مملکت خداداد کی آبیاری کر تا۔ تحریک پاکستان کی جدو جہد میںبچے ،بڑے،خواتین، بزرگ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ‘‘۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد نے اس نعرے اور اسکے پیچھے نظریہ ٔپاکستان کی خاطر اپنی جانیں نثار کیںجس کے بعد حصول پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔
اس موضوع پر سیر حاصل بحث سننے کا موقع ملا گزشتہ دنوں واہ کینٹ میں مرید ِ اقبال فائونڈیشن اور یوسف جبریل فائونڈیشن کے باہمی اشتراک سے نظریہ پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں جس کے صاحب صدر ممتاز اُردو دان و صحافی ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی جبکہ ایم ایل اے سردار خالد ابراہیم مہمان ِ خصوصی تھے۔کیا ہی خوبصورت تقریب تھی اور نہایت ہی عمدہ دلائل سے ڈاکٹر صاحب نے نظریہ پاکستان پر روشنی ڈالی اور حالات حاضرہ میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔بات یوں آگے بڑھی کہ آج پاکستان کے وجود کے70 سال بعد بڑے بڑے مفکر، دانشور، سیاسی پنڈت اور صحافی حضرات ٹی وی مناظروں میں بیٹھ کر جو یہ بحث کر رہے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنایا تھا یا اسلامی ،اس بحث سے ہماری نوجوان نسل کے ذہن متذلزل کرنے اور ان سے نظریہ پاکستان چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے۔سیکولرازم وہ فلسفہ ہے جو کسی بھی مذہب کو ریاست کے کاروبار میں مسترد کرتا ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان کا نظام قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا اور بانی پاکستان نے تو صاف کہا تھا کہ پاکستان کا آئین تو 14 سو سال پہلے حضوراکرم ؐنے عطا کر دیا۔
پاکستان کو بنے ہوئے ابھی 25 سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اس کا ایک حصہ ہم سے جدا کر دیا گیا۔ آج بھی یہ وہی سوچ اور اس سے جنم لینے والا نظام اور اسکے طاقتورلوگ ہیں جن کے چنگل میں ریاست کا نظام یرغمال بنا ہوا ہے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کا بھی خاتمہ ہو تاکہ موروثیت پاکستان کے نظام کا مستقل حصہ بنادی جائے جس طرح عرب ریاستوں میں یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ یہ جاگیردار، سرمایہ دار ، بدعنوان افسرشاہی ، مفاد پرست سیاسی ٹولہ اور منافق مذہبی ٹھیکیدار پاکستان کی قوموں میںتفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے آقا وہی مغربی طاقتیں ہیں جن کا ایجنڈہ تکمیل پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے ۔آج پاکستان کا مطلب ریاست کو چلانے والی اِن طاقتوں نے اپنے اپنے مفاد کے حساب سے نکال رکھاہے۔ آج پاکستان کا مطلب یہی کچھ رہ گیا ہے کہ اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرو اگر اقتدار مل گیا تو وارے نیارے اور اگر مہم میں مارے گئے تو شہید ضرور کہلائیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اِن سب چیزوں کا انجام کیا ہوگا ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ مایوسی حرام ہے ، پاکستان میں عام آدمی کو نکلنا ہوگا پاکستان کے گلے سڑے نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سچی اور قومی لیڈرشپ کو لانا ہوگا۔جمہوریت کے نام پر دھوکہ دہی کے اِس نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پاکستان میں نظریہ پاکستان کو واپس لانا ہوگا۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک عام آدمی کی فلاحی ریاست بنانا ہوگا جہاں کوئی ذات برادری، زبان، فرقہ اور صوبے کے نام پر کسی کی تفریق نہ کر سکے۔ پاکستان میں تمام ایسی جماعتوں پر پابندی لگانی ہوگی جو فرقہ، ذات برادری اور صوبائیت کے نام پر سیاست بازی کرتی ہیں۔پاکستان کے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی عزت کرنی ہوگی۔ عدلیہ کے نظام کو نچلی سطح سے ٹھیک کرنا ہوگا اور عدلیہ کو حکومت اور سیاست سے الگ کرنا ہوگا۔ ایسا نظام ہو جہاں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف ملے۔تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا۔ ایک عام آدمی کو اسکے بنیادی حقوق ریاست کو دینے ہونگے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ایک آدمی کا حق پاکستان پر سب سے زیادہ ہے۔ عام آدمی کو روزگار میسر ہو، روٹی نصیب ہو، تعلیم ، صحت، آمدو رفت کا سستا نظام موجود ہو۔ قانون کی بالادستی بغیر کسی تفر یق کے نافذ کرنی ہوگی جس کیلئے پولس کے نظام کو یکسر تبدیل کرنا ہوگاتاکہ ایک عام آدمی کی زندگی کو تحفظ فراہم ہو۔مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دینی ہونگی نہ مقدمات کو لٹکا کے رکھا جائے ۔ ٹیکس کا مربوط نظام نافظ کرنا ہوگا۔ عام آدمی پر سب سے کم ٹیکس اور امیر آدمی پر سب سے زیادہ کی طرز پر ٹیکس کا نظام نافذ کرنا ہوگا۔ ٹیکس کے محکمہ میں موجود بدعنوان افسروں کی فوری چھٹی کرنی ہوگی تب جا کر کہیں ہم اس قابل ہوں گے کہ نظریہ پاکستان کو اس کی اصل روح کے ساتھ زندہ رکھ پائیں ۔ آخر میں مرید اقبال اور یوسف جبریل فائونڈیشن کو مباکرباد پیش کروں گا جو اس مقصد میں اپنا حصہ احسن طریقے سے ڈال رہے ہیں

مزیدخبریں