62تریسٹھ متنازعہ کیوں؟

مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ آئین کی شق 62اور تریسٹھ 58ٹو بی بن گئی ہے۔
میاں نوازشریف کے خلاف نااہلیت کے فیصلے کو کچھ حلقوں اور ماہرین قانون تک کی طرف سے جوڈیشل ایکٹوازم کہا جارہا ہے۔ 58ٹو بی کے تحت نوے کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی ایک بار جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی دوبار حکومت توڑی گئی۔ اس شق کا مسلم لیگ ن کے نوے کی دہائی والے دور میں پیپلزپارٹی کے ساتھ انتہائی کشیدگی کے باوجود اس کے تعاون سے خاتمہ کردیا گیا تھا۔ جنرل مشرف نے مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو جس پارلیمنٹ نے مشرف کے ماورائے آئین اقدام کی توثیق کی اس نے ان کے ہاتھ میں 58ٹو کا ہتھیار بھی دیدیا تاہم پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر اس ترمیم کو ن لیگ کے تعاون سے ختم کردیا۔ جہاں یہ تماشہ بھی دیکھنے میں آیا کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے صدر فاروق لغاری کے لئے 58 ٹو بی کے اختیارات بحال کردئیے تھے تاہم فوج کی طرف سے گرین سگنل نہ ملنے پر فاروق لغاری وزیراعظم نوازشریف کے خلاف یہ اختیار استعمال نہ کرسکے۔ آئین کے آرٹیکل 62اور63 کو جنرل ضیاء الحق نے آئین کا حصہ بنایا۔ جنرل ضیاء کی آئین میں کی گئی اور بھی ترامیم ہیں۔ ان سب کو محض ضیاء سے منسوب ہونے کی بنا پر آئین سے نہیں نکالا جاسکتا۔ 62اور63کسی بھی پارلیمنٹرین کے صادق اور امین ہونے کے حوالے سے ہے۔ پارلیمنٹرین کیا کسی بھی سٹیک ہولڈر کا باکردار ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے اگر یہ شق آئین کا حصہ رہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں مگر اس کا اطلاق بلا امتیاز ہونا ضروری ہے۔اگر اس کا استعمال ’’ٹارگٹڈ‘‘ ہوگا‘ تو پھر باتیں تو ہونگی۔ کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اس شق کے استعمال سے آدھی پارلیمنٹ خالی ہوجائے گی۔ جب تک آئین میں یہ شق ہے، اس کا اطلاق ہونا چاہئے، چاہے پوری پارلیمنٹ خالی ہوجائے۔ اب مسلم لیگ ن کو یہ 58ٹو بی نظر آتی ہے تو آپکے پاس پارلیمان میں بھاری اکثریت ہے اسے بدل دیں، پی پی پی نے پہلے بھی اس کے خاتمے کی بات کی تو ن لیگ نے مخالفت کی تھی مگر مسلم ملک میں ایسے فیصلے مشکل ہوجاتے ہیں۔ سراج الحق نے خبردار کیا ہے کہ آج کہتے ہیں 62اور تریسٹھ پر عمل مشکل ہے‘ کل کہیں گے مسلمان ہونا مشکل ہے تاہم مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی ’’فتوے‘‘ کے ذریعے مدد کرسکتے ہیں جبکہ عمران خان تو اپنے ڈوبنے کے خدشہ کے تحت سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہونے سے پہلے تک ان آئینی ترمیمی دفعات کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن