ہند پاک تعلقات کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے حصول کیلئے ان دو ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ اب بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب LOC پر بے گناہ کشمیری شہید نہ ہوئے ہوں۔ سارا کشمیر ہندو بربریت کے خلاف جاگ اٹھا ہے۔ ہر روز ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی فوجیں بارڈر پر آنکھ میں آنکھ ڈالے کھڑی ہیں۔ دُور دُور تک صلح صفائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری حکومت ہندوستان کیلئے نرم گوشہ کیوں رکھتی ہے! تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جس ہاتھ میں بندوق ہو نیت میںبھی فتور ہو تالی کیسے بجائے گا؟ ہمارے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ فرماتے ہیں: ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ مشرف اور خود حضرت جن کا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا کچھ سال اور اقتدار میں رہ جاتے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجاتا۔ ناطقہ سربگیرباں ہے اِسے کیا کہئے! کونسا حل؟ کیا ہندوستان کشمیر آپکو دے دیتا؟ آپ اپنا حصہ مہاراج کے حوالے کردیتے؟ یا موجودہ لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لیتے؟ ان سے اقتدار تو چلا گیا ہے لیکن حرص و ہوس ہنوز باقی ہے۔جب دونوں ملک متفق ہوہی گئے تھے تو آپ اس مجوزہ معاہدے کو طشت ازبام کیوں نہیں کردیتے؟ یہ کونسا ایٹمی راز ہے جس کا فارمولا نہیں بتایا جاسکتا۔ دراصل بھٹو مرحوم بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے کا ایسا گُر سکھا گئے ہیں کہ ہر کسی نے اپنی اپنی بلی تھیلے میں گھسیڑ رکھی ہے۔ ہم ذاتی طور پر قصوری صاحب کو نہیں جانتے۔ لیکن ان کی آواز اپنے والد میاں محمود علی قصوری کی طرح پاٹ دار ہے۔ ان کے والد ملک کے ممتاز قانون دان تھے۔ ایک مرتبہ ہائی کورٹ میں اپنے دیر سے پہنچنے کی وضاحت کر رہے تھے تو جسٹس کیانی مسکرا کر بولے۔ ’’میاں صاحب آپ نے ویسے ہی قصور سے یہاں آنے کی زحمت فرمائی ہے۔ وہیں سے کھڑے کھڑے بحث کر لیتے!‘‘۔ جب خورشید صاحب انٹرویو دے رہے ہوں تو کچھ ’یوں گمان‘ ہوتا ہے جیسے اینکر کو باقاعدہ ڈانٹ رہے ہیں۔ ہندوستان جا کر انہوں نے جو اپنی سبکی کروائی ہے اور میزبان کی درگت بنوائی ہے اُسے کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو انہیں کشمیر کے باب میں کیا دیتے!
افغانستان برادر اسلامی ملک ہے۔ گو روزی تو رازق حقیقی دیتا ہے لیکن اس کی خوراک کا ہر راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ جب پاکستان کسی وجہ سے بارڈر بند کر دے تو وہاں چار سُو الجو، الجو کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ باایں ہمہ اس کا سلوک برادران یوسف جیسا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس نے سرحد ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ہزار برس پرانی بات کرتا ہے۔ ہزار برس قبل تو کابل سلطنت دہلی کا حصہ تھا۔ بلوچستان ایران کا حصہ تھا۔ ایران عربوں کے تسلط میں تھا۔ آدھا سندھ میر نصیر خان والئی قلات کے قبضے میں تھا۔ پورے ہندوستان پر کافی عرصے سے برطانیہ حکومت کرتا تھا۔ آپ کہاں اور کیسے لکیر کھینچیں گے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مغربی بارڈر پر بھی باقاعدہ جھڑپیں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت بھارت کی انگیخت پر یا امریکہ بہادر کے اشارے پر گولہ باری کر رہی ہے۔ امریکہ جب بھی پاکستان سے ناراض یا نالاں ہوتا ہے تو کٹھ پُتلیوں کا تماشہ شروع کرا دیتا ہے۔ گزشتہ سولہ برس سے امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان فتح نہیں کرسکیں۔ آئندہ سولہ سو سال تک بھی ایسا ہونا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ افغان جنگجو اس ندی کے پانی کی طرح ہیں جس کی روانی جاری رہتی ہے۔ ایک نسل لڑتے لڑتے ختم ہو جاتی ہے تو دوسری پود کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان کارزار میں اُتر جاتی ہے۔ افغانستان کے متعلق مشہور ہے کہ اس پر قبضہ کرنا آسان ہے۔ اسکو برقرار رکھنا کار دارد۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھتے۔ لگتا ہے کہ امریکہ نے بھی تاریخ کی کتاب کو طاقِ نسیاں میں ڈال دیا ہے۔ بہرحال پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اپنے ازلی دشمن بھارت کی موجودگی میں ایک اور دشمن پالنا قرین مصلحت نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین ہیں۔ ان میں را کے ایجنٹ بھی گُھسے ہوئے ہیں۔ افغان خفیہ ایجنسی بھی مذموم کارروائیاں کر رہی ہے۔ سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر امریکی افغانستان سے بھاگ جائیں گے۔ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت دھڑام سے گر پڑے گی۔ ایک طویل خانہ جنگی، افغان فوج تتر بتر ہو جائے گی۔ سارا ملک خاک اور خون میں نہا جائے گا۔ ملکی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ فیوڈل لارڈ اپنے اپنے حلقے بانٹ لیں گے اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونگے۔ فوج کا کچھ حصہ ادھر تعینات کرنا پڑے گا۔ اس سے مشرقی بارڈر پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ ویسے بھی ہندوستان کی فوج تعداد کے اعتبار سے چار گنا بڑی ہے۔ گویا دشمنی کے اعتبار سے یک نہ شُد دو شُد والی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ یہ ’’کریڈٹ‘‘ اس حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے دو ہمسایہ دشمنوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تیسرے ہمسایہ سے بھی دشمنی کی شروعات کر دی ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی سپاہ جنگ کو جُزو ایمان سمجھ کر لڑتی ہیں۔ ایران کا بارڈر تفتان سے شروع ہو کر بلوچستان کے علاقے گر، گراوک پروم تک پھیلا ہوا ہے۔ چاہ بہار میں ہندوستان کی شمولیت بھی باعث تشویش ہے۔ جب سے ملک بنا ہے ایرانی بارڈر پر ایک سپاہی بھی تعینات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ایران نے ایک ڈھال کی طرح پاکستانی سرحد کی حفاظت کی۔ ہندوستان سے جنگ کی صورت میں دامے، درمے، قدمے، سُخنے اس کی مدد کی۔ مذہب کے علاوہ ’’کلچرل افنٹی‘‘ اس قدر زیادہ ہے کہ سارے ایران میں اقبال اور غالب کا فارسی کلام شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ ان کی نظمیں سکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا حصہ ہیں۔ مشہد کی مشہور شاہراہ کا نام اقبال لاہوری روڈ ہے۔
عرب عجم دشمنی چودہ سو برس پر محیط ہے۔ ایران کو اپنے کلچر اور اعلیٰ تہذیب پر بڑا ناز تھا۔ جب اسلام نے عربوں کو سیاسی وحدت کی لڑی میں پرو دیا تو انہوں نے قیصر و کسریٰ کو ہلاکر رکھ دیا۔ ایران نے شکست کھا کر بھی ذہنی طور پر عربوں کی برتری تسلیم نہ کی۔ فردوسی نے جو ’’ہجو تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو‘‘ لکھی، اس شدیدنفرت کی غماز ہے جو ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔ ہر دور میں معروضی حالات کے تحت اس نے ایک نیا رنگ اور روپ اختیار کیا ہے۔ آج مشرق وسطیٰ دو متحارب گروپوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ امارات، یمن کی حکومت، مصر، شامی باغی وغیرہ ان کو امریکہ کی اشیرباد حاصل ہے۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نہ صرف جلتی پر تیل ڈال کر گیا ہے بلکہ معاشی طور پر عربوں کو خوب نچوڑا ہے۔ چار سو ارب ڈالر کے معاہدے خواب سا لگتاہے۔ دوسری طرف ایران، شام، یمن کے حوثی باغی، ایک حد تک عراق اور پس پردہ روس ہیں۔ یہودی جو کام ازخود نہیں کرسکے، اب وہ ممکن ہوتا نظر آتا ہے۔ سپرپاورز کو بھی انہیں معاشی طور پر تباہ کرنے اور پراکسی وار کا ایک نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔
ان حالات میں چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان غیر جانبدار رہتا، دونوں فریق اسلامی ملک ہیں، دونوں سے ہمارے مفادات جڑے ہوئے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی ان ممالک میں ملازمت کرتے ہیں، ہزار ہا طلبا ان ممالک کی درسگاہوں میں مذہبی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے بارہ سو میل لمبا بارڈر پاکستان اور ایران کے درمیان ایک اصل حقیقت کی طرح کھڑا ہے۔
خارجہ پالیسی قومی مفاد کے تابع ہونی چاہئے، قرائن اور شواہد سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو محض اپنا مفاد عزیز ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں گیس کے ذخائر بڑی تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ وہ وقت دُور نہیں جب چولہے سرد پڑ جائیں گے۔ زرداری حکومت نے ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا، ایران نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے بارڈر تک گیس لائن بچھا دی، پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس کی پاسداری نہ کی۔ عجیب عذرلنگ! امریکہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے، ہندوستان ان مقروضہ پابندیوں کے باوصف اگر چاہ بہار بندرگاہ ڈویلپ کرسکتا ہے تو یہاں اب کونسا امرمانع ہے؟ اصل وجہ کچھ اور ہے۔ قطری شہزادہ! اس کا لکھا ہوا خط جو پرتِ حقیر ثابت ہوا ہے، بدنام زمانہ سیف الرحمن۔ کسی زمانے میں مشہور تھا If you dig deep into the Politics of Middle East you will find Oil.آج کل تیل اور گیس کے کنوئوں میں جھانکیں تو سیف الرحمن کا چہرہ نظر آئے گا۔
عربوں کی طرف سے اس واضح جھکائو کے باوصف لطف کی بات یہ ہے کہ ہم سے دونوں فریق ناراض ہیں۔ ٹرمپ کی آمد پر مہمان ملک میں میاں صاحب کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ لکھی ہوئی تقریر دھری کی دھری رہ گئی۔ متلون مزاج امریکی صدر نے جب دہشت گردی کے شکار اور اس سے برسرپیکار ملکوں کا ذکر کیا تو اس میں پاکستان کا نام ہی نہیں تھا۔ ایران الگ سے کبیدہ خاظر نظر آتاہے۔ بدقسمتی سے ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں! یہ ذاتی مفادات اور طبعی میلانات کے تحت چل رہی ہے۔ کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، کوئی مستقل وزیر دفاع نہیںہے، ایک ایسے بوڑھے برگزیدہ شخص کو وزارت خارجہ کا جز وقتی قلمدان سونپا گیاہے جس کے متعلق ایک مزاح نگار نے کہا تھا: ’’جتنی دیر میں یہ شخص کرسی سے اٹھتا ہے، اتنے وقت میں تو ایک قد آدم دیوار اٹھائی جاسکتی ہے۔‘‘ (ختم شد)