بھارت میں اک جشن برپا ہے کیا اخبارات، کیا ٹی وی چینل شہ سرخیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ آزادکشمیر کا وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پاکستان سے علیحدگی چاہتا ہے آزاد کشمیر پاکستان سے آزادی مانگ رہا ہے وزیراعظم آزاد کشمیر نے اسلام آباد کوعلیحدگی کا نوٹس دے دیا ہے۔پاناما مقدمے کا فیصلے کیا آیا ٹھنڈے مزاج اوردھیمے لہجے میں ٹھہرٹھہر کر،بڑے سہج سبھاؤ سے گفتگو کرنے والے آزاد کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کے دو غیرمحتاط جملوں نے پاکستان میں آگ اور بھارت میں خوشی کی لہر دوڑا دی ۔اگرچہ تجربہ کارسیاستدان، جناب فاروق حیدر اب فرما رہے ہیں کہ ان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے اورمیں اس طرح کی گفتگو کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اس کالم نگار نے انکا وہ متنازعہ وڈیو کلپ کئی بار بغور دیکھا اورسنا جس میں نارمل انداز میں گفتگو کرتے کرتے بڑے دھیمے اورہموار انداز میں فرماتے ہیں''کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا مجھے سوچنا پڑے گا کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت کو جوڑنا ہے اگر یہی ہے قائداعظم اورعلامہ اقبال کا پاکستان 'یہ عجیب بات' ہے‘‘۔
اسی طرح گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان نے بھی اس مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی جوشیلے اور زہریلے لہجے میں ہرزہ سرائی کی جس کو چنداں اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن نرم وگرم چشیدہ وزیراعظم فاروق حیدر کا بڑے اطمینان سے آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو چیلنج کردینا ناقابل قبول ہے اگرچہ انہوں نے روایتی قسم کی وضاحت جاری کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ۔وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی وضاحت کو عذر گناہ بدتراز گناہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ان کی اس پریس کانفرنس پر سابق وزیراعظم جناب نواز شریف کو اپنا فوری ردعمل دینا چاہئے تھا لیکن وہ تاحال خاموش ہیں اگر وہ بوجوہ خاموش رہنا چاہتے ہیں تو ترجمان سے ٹویٹ ہی کرادیتے۔جناب نواز شریف کوفاروق حیدر کے اس متنازعہ اور قومی سلامتی کو داو پر لگا دینے والے بیان سے برات کا اعلان کرنا چاہئے تھا ۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ راجہ فاروق حیدر کی پریس کانفرنس جناب نواز شریف سے طویل صلاح مشورے اورآشیر باد سے کی گئی ہے اوریہ بیان بڑے غوروخوص کے بعد جاری کیا گیا ہے تاکہ مبینہ طور پر جے آئی ٹی رپورٹ کی 10ویں جلد کے انکشافات کی وجہ سے دبائو کامقابلہ کیا جاسکے اسی طرح اگلے چند ہفتے میں نیب کی طرف مستند دستاویزات پر مبنی ریفرنسوں کا معاملہ التوا میں ڈالا جاسکے۔ ویسے اگر جناب فاروق حیدر نے یہ پریس کانفرنس بعد از غروب آفتاب کی ہوتی تو بھی انہیں رعایتی نمبر دئیے جاسکتے تھے ۔راجہ فاروق حیدر صاحب' کاش آپ نے یہ پریس کانفرنس کرنے سے پہلے اپنے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس سے ہی مشورہ کرلیا ہوتا تو آپ اس زحمت اور ندامت سے بچ جاتے جو اب وضاحتیں کرتے آپ کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے کہ بنی منہاساں کا یہ سپوت' اب کشمیری دانش کی مسلمہ علامت سمجھا جاتا ہے ۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک زودرنج مشیرِ امرائے جماعت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر توجہ دلائی کہ راجہ فاروق حیدر کے اس بیان پر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والا اپنا اکلوتا رکن آزاد کشمیر رشید ترابی کو احتجاجاًواپس بلا لینا چاہئے اسی طرح خواتین کی نشستوں پر منتخب ہوکر اسلامی انقلاب بر پا کر دینے والی بیگم محمود الحسن کو بھی واپس بلا لینا چاہئے ویسے بھی کرپشن کے خلاف دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں میں صرف سینیٹر سراج الحق نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی طور پر فریق نامزد کیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ان کے ایک نمائندے کا نواز شریف کے متوالوں کی خیرات میں دی گئی نشست برقراررکھنے کا اخلاقی جواز ختم ہوچکا ہے۔لیکن جماعت اسلامی کے اخلاقی معیارات کے کیا کہنے کہ پاناما مقدمہ جیتنے کا اعزاز رکھنے والے اس حقیقت کو آسانی سے بھلا چکے ہیں کہ آف شور کمپنیوں کے مالکان میں ان کے چوٹی کے ایک رہنما کانام بھی شامل ہے جس کو تقیہ اور تاویل کے چکر میں بلایا جارہا ہے۔
'وزیراعظم' آزاد کشمیر فاروق حیدر کا بیان کہ ''کشمیر کی وابستگی''کے بارے میں سوچیں گے، شرمناک ہی نہیں ہولناک بھی ہے۔ کیا راجہ صاحب کوآج پاکستان' آزاد کشمیر اورمقبوضہ کشمیر کے حالات کا کچھ ادراک نہیں ہے کہ جہاں 7لاکھ ریگولر بھارتی فوجی گذشتہ 25برسوں سے ظلم وبربریت کابازار گرم کئے ہوئے ہیں۔کیا، انہیں اس بھارت سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے؟ جہاں ان کے کشمیری بھائیوں کو ڈھال بنا کر جیپ کے آگے باندھ دیا جاتا ہے ۔اصل حقیقت بہت افسوس ناک اور دل دہلا دینے والی ہے جس کا اظہار جناب نواز شریف سافما کے اجلاس اور ہولی کی تقریبات میں کھلے بندوں کرچکے ہیں کہ ہم ایک ہیں ہمارا کلچر ' رہن سہن اور "آلو گوشت" سب ایک ہیں صرف اس لکیر نے ' اس سرحد نے ہمیں جدا کردیا ہے‘ یہ صرف نواز شریف کی سوچ نہیں یہ ہماری مقتدر سیاسی اشرافیہ کی ذہنیت ہے ۔یہ لاڈلے،جمہوریت کو بھی اپنے من پسند مشاغل کا کھلونا سمجھتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ووٹ مل گیا ہے تو ہم ہمیں Touch me not کا درجہ مل گیا ہے۔
ماضی میں جب کبھی کسی رہنما کو پاکستان کے سیاسی یاانتظامی نظام سے جائز یاناجائز شکایت پیدا ہوئی تو اس نے بھارت کی طرف دیکھا مثلاًشیخ مجیب الرحمن، جی ایم شبیر ،مصطفی کھر، بگٹی کی باقیات الذوالفقار کے گوریلے، عبدالغفار خان کے پختون زلموں اورآج ن لیگ کے کشمیری رہنما نے بھارتی جنونیوں کی طرف للچائی نظر سے دیکھنے کی دھمکی دی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو سیاست کے نام پر ملک کو گالی دینے پر اتر آتے ہیں؟ن لیگ کی موجودہ حالت اورخواری کا ایک سبب کشمیریوں سے بے وفائی بھی بنی ہے وہ "وانی لہر"' جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑدیامگر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فضل الرحمن کے کان پر جوں تک نہیں رینگی انہوں نے 'کشمیر کمیٹی' کے کان، ناک' دل و دماغ کو اس طرح بند کیا کہ مقبوضہ وادی سے سید علی گیلانی تڑپ اْٹھے تھے جن کی فریاد اور پکار کسی نے نہ سنی ۔فضل الرحمن سے نواز شریف کی محبت کا ایک پہلو تو خیبرپختون خواہ صاف نظرآتاہے جہاں وہ حضرت مولانا کے ذریعے عمران خان کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔
مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی جمعیت علماکی اگلی نسل کا اکھنڈ بھارت سے تو تعلق ہو سکتا ہے لیکن جائے عبرت ہے کہ قائداعظم کی مسلم لیگ کے وارث نواز شریف اور قائد اعظم کی مخالفت کرنے والوں کے وارث فضل الرحمن نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے معاملے بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور پاناما فیصلے پر ناراض ہوکر راجہ فاروق حیدر مودی کے بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں جہان دہشتگرد گاؤ راکھشوں کے ہجوم کوچہ و بازار میں مسلماں نوجوان بچوں اور بچیوں ذبح کر رہے ہیں۔حرف آخر یہ کہ ’’امن کی آشا‘‘ والے پاکستان کیخلاف' قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی ہر خبر کو اس کی خبریت سے بڑ ھ کر کیوں اہمیت دیتے ہیں۔اسکی وجہ گریٹر ساؤتھ ایشیا کا گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری منصوبہ ہے جو خاکم بدہن اب آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اسی لئے دیدہ دلیری سے کلبھوشن کیلئے اغوا کے ثبوت فراہم کرنے کیلئے شہر کا نام بدل پرانی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ اور اب وزیر اعظم آزاد کشمیر کی غیر محتاط پریس کانفرنس شہ سر خیوں کے ساتھ شائع کی جاتی ہے جس پر بھارت میں جشن برپا ہے اور پاکستان میں' نہیں جناب صرف پاکستان سے محبت کرنیوالوں کے ہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور سابق وزیر اعظم غیر جانبدار ہیں خاموش ہیں ۔