شہریار بالاآخر تنے رسے سے کامیابی سے اتر گئے

کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے گذشتہ دنوں بحثیت چئیرمین آخری مرتبہ گورننگ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی وہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ اپنے تین سالہ عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اس دور میں ذاتی طور پر وہ کسی حد تک غیر متنازعہ رہے۔ ان کے نام پر عہدے کے غلط استعمال کا جو سب سے بڑا الزام آتا ہے وہ برطانیہ میں گذشتہ سال سرجری کا لاکھوں روپے کا خرچہ ہے تاہم اس معاملے پر بھی بورڈ نے بعد میں میڈیکل انشورنس کا وضاحتی بیان جاری کیا تھا۔ ان کے لیے حالات اتنے زیادہ سازگار نہیں تھے جتنا عرصہ بھی شہریارخان چئیرمین رہے وہ تنے رسے پر چلتے رہے، کرکٹ بورڈ میں دو چئیرمینوں کی بحث جاری رہی۔ اس حوالے سے ہمیشہ ان سے سوالات کیے جاتے رہے لیکن انہوں نے کبھی اسکی تصدیق نہیں کی بلکہ مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے اور نجم سیٹھی کی کھل کر تعریف کرتے رہے۔ شہریارخان کی مدت پوری کرنے اور اس دوران حاصل ہونیوالی کامیابیوں میں انکی اہلیہ کا بہت بڑا کردار ہے شہریارخان ایک کامیاب سفارتکار ہیں معاملہ فہم اور موقع کی مناسبت سے بات کرنے ، اپنی ضرورت اور مرضی کا بیان جاری کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں تو پس پردہ انکی اہلیہ بھی طاقت کے مرکز کے طور پر مختلف معاملات کو سنجیدگی اور سمجھداری کیساتھ سلجھاتی رہیں بالخصوص گذشتہ برس انگلینڈ میں بورڈ چئیرمین کی علالت کے دوران انہوں نے جس انداز میں اعلی ترین سطح پر معاملات کو قابو میں رکھا وہ انکی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یوں شہریارخان کی تین سالہ مدت پوری کرنے میں انکی اہلیہ کے کردار کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا سکتا۔ پاکستان میں میں عہدے یا کنٹریکٹ کی مدت پوری کرنا ہی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں یہ کام بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ چند سال پہلے کی بات ہے ڈیو واٹمور قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوا کرتے تھے وہ اپنے کنٹریکٹ کی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئے غالبا انکا پاکستان میں آخری دن تھا ہم بھی اس روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں موجود تھے واٹمور سے گفتگو کا موقع ملا تو نے ان سے پوچھا بحثیت کوچ آپکی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میں نے اپنے معاہدے کی مدت پوری کی ہے یہی میری بڑی کامیابی ہے۔ 

شہریار خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انکے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں دنیا کی نمبر ون ٹیم بنی، ایک روزہ کرکٹ میں درجہ بندی مایوس کن حد تک نیچے ضرور آئی تاہم انگلینڈ میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ میں کامیابی نے جاتے جاتے انہیں اس فارمیٹ میں بھی خوشی دی ہے۔ بعض معاملات میں بہت زیادہ مخالفت کے باوجود شہریارخان اپنے فیصلوں پر قائم رہے بالخصوص مصباح الحق پر ہر طرف سے تنقید اور بعض اوقات انہیں گھر بھجوانے کے حوالے سے بھی خاصا دباو رہا لیکن چئیرمین نے مصباح الحق پر اعتماد برقرار رکھتے ہوئے انہیں مکمل سپورٹ کیا اور مصباح الحق ٹیسٹ کرکٹ میں ملکی تاریخ کے کامیاب کپتان بنے۔ مکی آرتھر کو عہدے سے ہٹانے کے حوالے سے بھی دباو آیا لیکن چئیرمین نے اس دباو کو قبول کیا اور مکی آرتھر پر اعتماد برقرار رکھا۔ یونس خان اور اظہر علی کی مس ہینڈلنگ پر بھی تنقید کی گئی۔ وقار یونس کو جس انداز میں ہٹایا اور پھر ہارون رشید کو فارغ کرنے اور پھر ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز تعینات کرنے پر بھی ماہرین نے بورڈ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم مدثر نذر کو اکیڈمیز کا ڈائریکٹر اور انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کرنا انکے بڑے فیصلے ہیں۔ بالخصوص مدثر نزر کو پاکستان لانے سے اکیڈمیز پروگرام فعال ہونیکے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ بھارت کیساتھ کرکٹ تعلقات بحال کرنے کا ہدف انہیں ملا تھا اس شعبے میں وہ ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں لیکن اس دور اقتدار میں وہ پاکستان بھارت کرکٹ سیریز کے انعقاد میں ناکام رہے ناصرف ناکام رہے بلکہ اس سلسلہ میں بھارت کے دورے کے موقع پر نامناسب سلوک بھی برداشت کرنا پڑا۔ بھارت کیساتھ کرکٹ سیریز کے موقف پر انہیں قومی وقار اور عزت کی یاد دہانی بار بار کروائی جاتی رہی ہے۔شہریار خان کے اکثر بیانات پر کرکٹ بورڈ کو وضاحتی بیانات بھی جاری کرنا پڑتے تھے۔ تین سال قبل چئیرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے چھ ماہ میں بائیو مکینکس لیب فعال کرنیکا اعلان کیا تھا بائیو مکینکس لیب چھ ماہ میں فعال تو نہیں ہو سکی لیکن اس منصوبے پر بہت کام ہو چکا ہے اب پاکستان کی بائیو مکینکس لیب کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے ایکریڈیشن ملنے کے قریب ہے۔ انکے دور میں کرکٹ بورڈ میں صحافیوں کا داخلہ محدود کیا گیا اس فیصلے پر قذافی سٹیڈیم کے باہراحتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ زمبابوے کے دورہ پاکستان کی صورت میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی بھی ہوئی لیکن اسکے بعد کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوا اس میچ سے بھی ملک کا خوش کن تاثر دنیا میں گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے کھلاڑیوں میچ آفیشلز کے لیے پر کشش بنایا گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈرافٹنگ کا نظام متعارف کرواتے ہوئے کھلاڑیوں کو سالانہ کنٹریکٹ اور معاوضوں میں سو فیصد اضافہ کیا گیا کوچنگ سٹاف کو بھی مالی فائدہ دیا گیا اس کام میں چیئرمین کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک افیئرز کمیٹی کے سربراہ شکیل شیخ کی خدمات کو بھی سراہا ، شکیل شیخ کا شمار ڈومیسٹک کرکٹ پر کام کرنیوالے بورڈ کے نمایاں آفیشلز میں ہوتا ہے ۔ شہریار خان نے متعدد بار انکی تعریف کی ہے۔ بگ تھری جیسے غیر منصفانہ فارمولے سے جان چھڑانے میں بھی شہریار خان کا نمایاں کردار رہا۔
بحثیت چئیرمین وہ میڈیا فرینڈلی شخصیت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ انکا روایتی جملہ "بھائی میاں کیا خبریں ہیں" کرکٹ بورڈ جانیوالے صحافی ضرور یادرکھیں گے۔ شہریارخان اچھا وقت گذار گئے ہیں ہماری نیک تمنائیں اور خواہشات انکے ساتھ ہیں۔ ان کے بعد چئیرمین کرکٹ بورڈ کے لیے نجم سیٹھی مضبوط امیدوار کے طور پر میدان ہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے انکی تعیناتی عدالتوں میں چیلنج ہو چکی ہے کوئی آئینی و قانونی رکاوٹ پیش نہ آئی تو وہ بلا مقابلہ اور متفقہ طور پر منتخب کیے جائیں گے اس حوالے سے وہ تمام ضروری کام کر چکے ہیں۔
کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کوئی بھی ہو یہ کھیل اس ملک کے کروڑوں لوگوں کا پسندیدہ کھیل ہے اسکی بہتری اور فروغ کیلئے اقدامات کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن