مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا نام زبان پر آتے ہی تحریک پاکستان میں خواتین کا بے مثال کردار سامنے آجاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کے لئے ان کی جدّوجہد بھی اہلِ وطن کے لئے مشعل راہ ہے۔ ان کی ساری زندگی ایثار اور قربانی سے عبارت ہے۔ جب بابائے قوم کی اہلیہ محترمہ مریم جناحؒ کا انتقال ہو گیا تو مادرِملّت ؒ نے اپنا ڈینٹل کلینک بند کر کے خود کو اپنے ضعیف العمر بھائی کی تیمار داری کے لئے وقف کر دیا۔ بعد ازاں جب بھائی نے بّرصغیر کی مسلمان خواتین کو تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کرتے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اپنا آرام و سکون تیاگ کر دن رات اس سمت میں کام شروع کر دیا ا ور اپنی جانفشانی اور اولوالعزمی کی بدولت بڑی قلیل مدّت میں خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے منظّم و متحرّک کر دیا۔ اتنی سخت محنت کے باوجود مادرِملّتؒ نے کبھی اس جماعت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ مادرِملّت ؒ کی عظمت کے سب سے بڑے گواہ تو خود قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے جن کے مطابق ’’تفکّرات، پریشانیوں اور سخت محنت کے اُس زمانے میں جب بھی میں گھر آتا تھا تو میری بہن روشنی اور اُمید کی تیز شعاع بن کر میرا استقبال کرتی۔ اگر وہ میری نگران نہ ہوتی تو میرے تفکرّات کہیں زیادہ ہوتے، میری صحت کہیں زیادہ خراب ہوتی۔ اس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، کبھی شکایت نہیں کی۔ اس کے حُسنِ سلوک سے میری ساری تکلیفیں دور ہو جاتیں۔‘‘
ایک وقت آیا جب ووٹ کی طاقت سے معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان میں عوام کے جمہوری حقوق کو فوجی آمریت کے بوٹوں تلے روندا جانے لگا۔ کالے قوانین کے تحت محب ِ وطن سیاسی رہنمائوں کی زبان بندی کی جانے لگی۔ مارشل لاء کا جبر اس قدر زیاد ہ تھا کہ بڑے بڑے جغادری سیاست دانوں کا پتا پانی خشک ہو گیا تھا۔ تب فوجی آمر ایّوب خان نے اپنے ناجائز اقتدار کو جواز عطا کرنے کی خاطر بنیادی جمہوریتوں کے خود ساختہ نظام کی بنیاد پر 1964 ء میں صدارتی انتخاب کے انعقاد کا اعلان کر ڈالا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس مرحلے پر مادرِملّت ؒ کی صورت نجات دہند ہ دکھائی دیا اور انہوں نے بصد اصرارمادرِ ملتؒ کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ کر لیا۔ پیرانہ سالی کے باوجود محض عوام کے حقِ حاکمیت کی بحالی کی خاطر ان کے اس جرأت مندانہ فیصلے میں قائداعظمؒ کے فکر و عمل کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ 11 دسمبر 1964 ء کو لاہور کے ایک جلسۂ عام سے اپنے خطاب میں انہوں نے فوجی آمر کو للکارتے ہوئے کہا: ’’مسٹر ایّوب خان نے میرے متعلق کہا ہے کہ میں بوڑھی عورت ہوں اور منصبِ صدارت کا بوجھ کیسے اٹھا سکوں گی لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ مجھ میں ایمان کی قوت ہے جو مسٹر ایّوب خان میں نہیں ہے۔ آج پوری قوم ایمان کی قوت سے سرشار ہے۔ یہ بوجھ اٹھانے کیلئے میں اکیلی تو نہیں ہوں۔ عوام کے سارے بازو میرے ساتھ ہیں۔‘‘ اس صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ بابائے قوم کی ہمشیرہ ہی فتحیاب ہوں گی تاہم عسکری اور سول بیوروکریسی نے ان انتخابات میں جھُرلو استعمال کر کے عوامی رائے کے برعکس ایّوب خان کو کامیاب قرار دے دیا۔ یہ ایک تاریخی غلطی تھی جس کا خمیازہ ہم نے 16 دسمبر 1971 ء کو اس مملکتِ خداداد کے دو لخت ہونے کی صورت بھگت لیا۔ مسخ شدہ انتخابی نتائج نے مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ سے نہایت بدظن کر دیاکیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مادرِملّت ؒ صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو ان کی محرومیوں اور حق تلفیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ جب ایسا نہ ہونے دیا گیا تو وہ سمجھ گئے کہ آبادی میں اکثریت رکھنے کے باوجود انہیں اقتدار میں ان کا جائز حق کبھی نہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ اس ڈگر پر چل پڑے جو متحد کی بجائے منقسم پاکستان کی طرف جاتی تھی۔ درحقیقت مادرِملّت ؒ کی فتح کو شکست میں تبدیل کرنا متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل کے مترادف تھا۔ انتخابی مہم کے دوران آسمان نے یہ نظارہ بھی کیا کہ مغربی پاکستان میں ایّوب خان کے حق میں نکلنے والے کچھ جلوسوں میںمادرِملّت ؒ کے وقار کے منافی طرز عمل اختیار کیا گیا۔ مادرِملّت ؒ ہماری قوم کی ماں تھیں، محسن تھیں۔ ایک فوجی آمر کی خوشنودی کی خاطر جن لوگوں نے مادر ملتؒ کے متعلق ہتک آمیز گفتگو کی، وہ ہمارے قومی مجرم تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ہرزہ سرائی کے خلاف پوری قوم اٹھ کھڑی ہوتی لیکن سیاسی مصلحتیں آڑے آ گئیں۔ نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ اپنی ماں کی عزت نہ کروا سکنے والی قوم کو سقوطِ بغداد کے بعد ملت اسلامیہ کو پیش آنے والا سب سے بڑا سانحہ دیکھنا پڑا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو نہ تو اقتدار کی خواہش تھی نہ اختیار کی کیونکہ وہ مادرِملّت ؒ ہونے کے ناتے اس مقام پر فائز تھیں جہاں منصب اور عہدے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ رہبر پاکستان محترم مجید نظامی اور ان کی زیر ادارت روزنامہ نوائے وقت نے مادر ملتؒ کی انتخابی مہم میں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ محترم مجید نظامی نے ہی انہیں ’’مادر ملتؒ‘‘ کا خطاب دیا تھا اور فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان کی جانب سے اخبار میں یہ خطاب شائع نہ کرنے کے مطالبے اور دبائو کو جوتے کی نوک پر رکھا تھا۔ 9 جولائی 2013 ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں مادر ملتؒ کی 46 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ خصوصی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’پاکستان ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا تھا تاہم جنرل محمد ایوب خان نے بندوق کے زور پر اس پر قبضہ کر لیا۔ مادرِ ملتؒ اس کے مقابلے کیلئے کھڑی ہو گئیں اور اللہ کی مہربانی سے میں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انتخابات کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ہاں ناشتے پر یاد فرمایا جو بلا شبہ میری زندگی کے یادگار ترین لمحات ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انتخابات کے دوران حمایت پر میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ میری والدہ کے برابر ہیں۔ میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے جو میرے ساتھ دیگر پاکستانیوں نے بھی کیا۔‘‘ بابائے قوم کی وفات کے بعد مادرِ ملتؒ نے خود کو عملی سیاست سے بالکل الگ تھلگ کر لیا تھا لیکن وہ ملک کے سیاسی و سماجی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھیں اور اہم مواقع پر اپنے بیانات اور پیغامات کے ذریعے قوم کو وعظ و نصیحت کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ جس نظریے اور اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کی بنیاد تھی، کچھ بدطینت اور ضمیر فروش عناصر ان کے خلاف فضا تیار کر رہے ہیں۔ وہ ایسا ان دشمن قوتوں کے ایماء پر کر رہے ہیں جو پاکستان کے قیام کو روکنے میں ناکامی کے بعد اس کی اسلامی نظریاتی بنیادوں کو خدانخواستہ منہدم کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 12 مئی 1957 ء کو پشاور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی قوم کو تاکید کی: ’ ’نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لئے ملک میں مضبوط اور بیدار رائے عامہ پیدا کریں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور عوام کو چاہئے کہ وہ اس مملکت کے بنیادی اصولوں میں اپنے یقین کو محکم بنائیں۔ آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ مادی نقصان کی تلافی تو ہو سکتی ہے لیکن بنیادی نظریہ میں ہی یقین نہ رہے تو اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ آزادی کے تحفظ کے لئے ہمیشہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے حقوق اور پاکستان کے بنیادی اصولوں پر زد نہ پڑنے دیں۔‘‘ مادر ملتؒ کا یہ فرمان ان عناصر کے گال پر ایک زوردار طمانچے کے مترادف ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی اصطلاح کا فوجی آمر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دورِ حکومت سے پہلے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ مادرِ ملتؒ کے یومِ ولادت اور یومِ وفات منانے کی طرح بھی محترم مجید نظامی نے ہی ڈالی تھی۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے گزشتہ روز ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ نے اپنے پیغام میں مادرِملتؒ کی ملی و قومی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور اہل وطن کو ان کے نقش قدم کی پیروی کی تاکید کی۔ تقریب میں ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین جسٹس(ر)میاں محبوب احمد‘ جسٹس(ر)خلیل الرحمن خان‘ جسٹس(ر)بیگم ناصرہ جاوید اقبال، بیگم مہناز رفیع‘ چوہدری نعیم حسین چٹھہ‘ رانا محمد ارشد‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان‘ عارفہ صبح خان اور بیگم صفیہ اسحق نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ تقریب میںمادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی 126ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا اور تحریک پاکستان میں ان کے سرگرم کردار نیز صدارتی انتخابی مہم کے دوران اُن کے عظیم الشان جلوسوں پر مبنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے تقریب کی نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے کہا کہ مادرِ ملتؒ درحقیقت محسنۂ ملت اور قائداعظمؒ کا نقش ثانی تھیں۔ ان کی زندگی پاکستانی خواتین کے لئے ایک رول ماڈل ہے جسے اپنا کر وہ قومی زندگی میں!ی کردار ادا کرسکتی ہیں۔