1930ءمیں پنجابی رسالہ ”سارنگ“ میں علامہ اقبال کا پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے انٹرویو شائع ہوا تھا۔ یہ انٹرویو رسالے کے ایڈیٹر عزیز میسوری نے کیا۔ علامہ صاحب کا کہنا تھا ”پنجابی شاعری بڑی ودھیا شاعری اے تے خاص طور تے جذبات نال بھجی ہوندی اے۔ بولی سدھی سادی نرول تے مِٹھی ہوندی اے۔ عشق دیاں رمزاں پنجابی وچ واہ واہ کہیاں جا سکدیاں نیں۔ پنجابی شاعری تصوف نال بھری ہوئی اے۔ ایس وچ دیس پیارے تے جوش دوان والے گیت نیں۔ بولیاں تے گیتاں دا کوئی انت نہیں۔ اردو وچ تصوف دی شاعری ای نہیں سوائے خواجہ میر درد دے کلام دے، نہ ای اردو وچ وطن دے پیار دی شاعری تے نہ ای ایہدے وچ فوجی گیت نیں۔ اردو دی عشقیہ شاعری وچ بناوٹ زیادہ تے جذبات دا زور گھٹ اے۔ عام لوکاں دے گیت تے بولیاں بالکل نہیں۔ ایہدی وجہ ایہہ وے کہ اردو شاعری درباراں دے امیراں تے مصاحباں دے ہتھ جمی پلی۔ اوہ لوک یاں تے ایرانی یا فارسی مذاق دے پریمی سن۔ اوہناں دا عام لوکاں نال کوئی میل جول نہیں سی۔ ایس کر کے اردو شاعری وچ امیرانہ رنگت آ گئی سی۔ اوہ شعر کہنا اک فیشن سمجھدے سن“ علامہ اقبال نے پنجابی میں شاعری کی نہ نثر لکھی۔ (صرف دو پنجابی نظمیں بچوں کے بارے میں ملتی ہیں) یہ سبھی جانتے ہیں کہ وہ بولتے پنجابی تھے۔ پنجابی کی صوفیانہ شاعری کے قدردان تھے۔ بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید کی کافیاں اور ہیر وارث شاہ شوق سے سنتے۔ علامہ اقبال اردو اور فارسی کے سکالر تھے۔ انگریزی زبان پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ سیالکوٹ کی دھرتی کے اس نامور سپوت نے اپنی تمام زندگی میں اپنا پنجابی پن برقرار رکھا۔ میری کتاب ”علامہ اقبال تے پنجابیت“ پنجابی زبان میں شائع ہوئی جس میں علامہ اقبال کے پنجابی زبان و ادب سے حوالے سے مٹیریل موجود ہے۔ میرے اس کام کو فرزند اقبال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے پسند کیا اور فلیپ میں لکھا ”علامہ اقبال کے بارے میں اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور دنیا کی تقریباََ ہر زبان میں کتابیں لکھی گئیں مگر علامہ کے پنجابی پیار کے حوالے سے کسی نے نہیں لکھا۔ تنویر ظہور کو میں مبارک دیتا ہوں کہ اس نے یہ کمی پوری کی“ ۔ کتاب میں جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے انٹرویو کے علاوہ ممتاز دانشوروں اور اقبال شناسوں کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ جو علامہ کے پنجابی زبان و ادب کے لگاو¿ کے حوالے سے ہیں۔ مثلاََ ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر طاہر تونسوی، پروفیسر محمد منور مرزا، پروفیسر محمد شریف بقا، سید افضل حیدر، ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد، پروفیسر شریف کنجاہی، اسلم کمال، ڈاکٹر ناصر رانا، پروفیسر سمیع اللہ قریشی، ڈاکٹر خالد جاوید جان، ڈاکٹر اسلم رانا و دیگر۔ کتاب کے آخر میں علامہ اقبال کی دو پنجابی نظمیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ دلی (انڈیا) سے سردار سرجیت سنگھ لانبہ لاہور آئے تو میں نے ان کا انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”بھارت میں علامہ اقبال کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اقبال کا پیغام آفاقی ہے۔ بھارت میں علامہ پر بہت کام ہوا ہے۔ علامہ اقبال کی کتابیں ”بانگ درا“ ”ضرب کلیم“ اور ”بال جبریل“ کو پنجابی ڈیپارٹمنٹ پٹیالہ نے پنجابی (گور مکھی رسم الخط) میں شائع کیا ہے۔ تاکہ وہ لوگ بھی علامہ اقبال کے کلام کو پڑھ سکیں جو اردو نہیں پڑھ سکتے۔ گزشتہ دنوں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف نے ”علامہ اقبال تے پنجابیت“ کے حوالے سے FM95 ریڈیو اور ویب سائٹ کے لیے راقم کا انٹرویو کیا جو نشر اور ٹیلی کاسٹ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صغرا صدف کی میز پر ”پلاک ڈکشنری“ کی چھ جلدیں پڑی تھیں۔ پنجابی کی یہ جامع ڈکشنری ہے جو ڈاکٹر صغرا صدف کی زیر نگرانی شائع ہوئی۔ مذکورہ ڈکشنری کو مرتب کرنے کے لیے دس ریسرچ سکالرز کی ٹیم تھی جس کے سپروائزر ڈاکٹر شاہد کاشمیری تھے۔ یہ دو سال کا پراجیکٹ تھا۔ قبل ازیں شائع ہونے والی تمام پنجابی ڈکشنریوں کو سامنے رکھا گیا۔ اس طرح چھ جلدوں میں مستند ڈکشنری مرتب کر کے شائع کی گئی۔ مرکزی اردو بورڈ (نیا نام اردو سائنس بورڈ) نے 1974ءمیں ارشاد احمد پنجابی کی مرتب کردہ اردو پنجابی لغت شائع کی تھی۔ یہ لغت اشفاق احمد (ڈائریکٹر مرکزی اردو بورڈ) کی زیر نگرانی شائع کی گئی تھی۔ نظرثانی ممتاز مفتی اور عبدالمجید بھٹی نے کی۔ سردار محمد خاں کی پنجابی اردو ڈکشنری (دوجلدوں میں) سچل سٹوڈیوز نے شائع کر کے پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کے حوالے کر دی۔ پروفیسر شریف کنجاہی نے ”مختصر پنجابی لغت“ مرتب کی جو شعبہ پنجابی، پنجاب یونیورسٹی نے 1981ءمیںشائع کی۔ اس کے نگران ڈاکٹر وحید قریشی اور مجلس مشاورت میں ڈاکٹر شہباز ملک، ڈاکٹر اسلم رانا اور پروفیسر حفیظ تائب شامل تھے۔ اردو سائنس بور ڈ نے تنویر بخاری کی مرتب کردہ ”پنجابی اردو لغت“ شائع کی۔ ”پلاک“ نے پنجابی لغت کے حوالے سے جو کام کیا ہے، ان سب سے منفرد ہے۔ ڈاکٹر صغرا صدف اردو اور پنجابی کی معروف شاعرہ، رائٹر، ریسرچ سکالر اور براڈ کاسٹر ہیں۔ میاں محمد بخش کی لازوال تخلیق ”سفر العشق“ کے حوالے سے ان کا خصوصی مطالعہ ہے اور اس پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صغرا صدف ڈائریکٹر جنرل سے قبل اسی ادارے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھیں۔ اس دوران اور پھر بطور ڈائریکٹر جنرل کے انہوں نے پنجابی زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے بہت کام کیا اور کر رہی ہےں۔ ”پلاک“ کے تحت پنجابی جریدہ ”ترنجن“ شائع ہوتا ہے مگر ڈاکٹر صغرا صدف نے اس کے علاوہ 2016ءسے تحقیقی مجلہ پنجابی زبان، فن و ثقافت ”پنجاب رنگ“ کا اجرا کیا ہے۔ اس کے دو شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صغرا صدف ہی کے دور میں ”پلاک“ کے تحت کچھ نئے کام بھی کیے گئے ہیں۔ مثلاََ پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ، شفقت تنویر مرزا ایوارڈ، پلاک کلچرل ایوارڈ، طالب علموں کے لیے ایوارڈ اور صوفی شاعروں کے نام سے ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔ میلہ بہاراں، میلہ چراغاں اور ثقافتی میلوں کے ذریعے پنجاب کی ثقافت کو اجاگر کیا گیا۔
”پلاک“ کے تحت FM95 ریڈیو کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی پنجابی کانفرنسیں، مشاعرے اور میلے کرائے گئے۔ مثلاََ فرید میلہ ملتان، پاک پتن اور جنڈیالہ شیر خاں، وارث شاہ کے مزار پر۔ ڈاکٹر شہزاد قیصر ”پلاک“ کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے جن کا تعلق پنجابی شعر و ادب سے بھی تھا۔ ڈاکٹر صغرا صدف دوسری ڈائریکٹر جنرل ہیں، جن کا تعلق پنجابی شعروادب سے بھی ہے۔ ورنہ ان سے قبل جتنے ڈائریکٹر جنرل آئے، وہ بیوروکریٹ تھے اور پنجابی شعروادب سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔