میں اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو کر ساری زندگی شکر گزاری میں بسر کردوں تو بھی اسکی دی ہوئی زندگی کے ایک سانس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا اسکی نعمتیں، اسکی مہربانیاں اس کی دی ہوئی یہ زندگی اس میں ایمان کی حرارت اس میں اسلام کی اہمیت اس آزادی کی نعمت اس میں ذہنی جسمانی روحانی اورا عصابی تندرستی اس میں عظیم المرتبت اور رزق حلال کمانے کھلانے اور قناعت سکھانے کا شعوری طور پر اہتمام کرنے والے والدین جنہوں نے دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کو اپنا فرض اور اولاد کا حق سمجھا صالح لائق اور تابعدار اولاد دی۔ ایسا دیندار ماحول جس میں کائنات کے مالک و خالق کی مرضی سے فیصلے ہونے اور انسانی سطح پر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیمطابق محنت اور کوشش کرنے کا سبق چھوٹے سے خاندان کے ہر فرد کو شکر اور صبر دونوں کی اہمیت بتا کر سمجھا دیا جائے۔ جہاں انفرادی سطح پر قرآن کی اس آیت مبارکہ کو اپنے ہر کام اپنی ہر کوشش اور اسکے نتیجہ کو بخوشی قبول کرنے کی پریکٹس کرائی ہو کہ ”شاید کہ بری لگے تم کو ایک چیز اور بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (البقرہ 216) اگرچہ سیاق و سباق میں یہ آیت جہاد کی فرضیت یعنی دین کے دشمنوں سے لڑائی لڑنے کے حوالے سے نازل ہوئی مگر بطور مجموعی اسکے ثمرات سمیٹنے سے مسلمانوں نے عروج پایا اور اس آیت کے ذریعے ”جو کچھ بھی بھلائی تجھے پہنچے وہ اللہ کی طرف سے اور جو پہنچے تجھ کو برائی تو وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے۔ (النساء79) اور پھر حکومت کے بارے میں اللہ کے اس اعلان کی کہ ”کہہ دیجئے اے اللہ مالک سلطنت کے تو جسے چاہے سلطنت دے (1) جس سے چاہے سلطنت چھین لے (آل عمران 26) کی سمجھ آ جائے تو یہاں سارے جھگڑے ختم ہو جائیں مگر ہم تو اس آیت کے دوسرے حصے کو بھی ایمانداری سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ”تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر ے بلکہ یہ بھی ہمیں اس وقت یاد آتی ہے جب ہمیں کسی سے ذلت مل رہی ہو۔ اپنی کرتوتوں کے سبب یا کسی آزمائش میں یا کسی فرعون صفت حکمران یا لا دین بااثر شخص سے تو ہمیں یہ یاد آ جاتا ہے کہ عزت اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ دوسروں کی عزت بھی اس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے یہ کبھی یاد نہیں آتا۔ اللہ معاف کرے اسکے نام پر حاصل ہونے والے اس خطہ ارض پر اسکے دین کو نافذ کرنے کے وعدوں سے انحراف ہمیں پستی میں لے گیا۔ اسکی منشاءو مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اللہ کو ، اپنی اولین ترجیح نہ سمجھنے کی سزا پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالعموم اورپاکستان کے مسلمانوں کو بالخصوص مل رہی ہے جتنی جمہوریت کے جزوی حصہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک ”حب جمہوریت“ میں اپنی سرفروشی اور کمٹمنٹ کا اعلان کرتا ہے اور اس کی روح میں اترے بغیر انتخاب برائے انتخاب کے تصور کو جمہوریت سمجھ بیٹھا ہے ۔ اس پر اس نوع کا ہی نتیجہ نکلے گا۔ انتشار دشمنی، ضد، ہٹ دھرمی اور نام نہاد اصول جن کو نافذ کرنے اور نافذ نہ کرنے میں لڑائی بڑھتی ہے سکڑتی نہیں۔ محترم قارئین! مجھے یہ تمہید آپ کی اس پناہ محبت کی وجہ سے باندھنی پڑی جو میرے 13 اگست 1994 کو انہی صفحات پر چھپنے والے کالم ”سیاست میں ایک عمران کی ضرورت“ اور جسے نوائے وقت نے اپنے قارئین کی دلچسپی کےلئے 28 جولائی کو دوبارہ شائع کیا۔ میں اخبار کی انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ تمام قارئین کا بھی جنہوں نے مجھے سینکڑوں کی تعداد فون، فیس بک، واٹسپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام بھیجے۔ اسے پسند کیا اور بہت سے قارئین نے پوچھا کہ کیا عمران خان کو بھی آپ نے یہ کالم پہنچایا ہے اور بہت سوں نے یہ استفسار کیا کہ اب کیا ہو گا اس پر کب لکھیں گے۔ کافی تعداد میں پیغامات میں عمران خاں کو پیش آنے والی ممکنہ اور ناممکنہ پریشانیوں کا ذکر کرنے اس کا حل بتانے کا محبت بھرا مطالبہ کیا۔
معزز قارئین نہ میں کوئی نجومی ہوںنہ چیخ چلا کراپنا م¶قف بیان کرنے کو پسند کرتا ہوں کیونکہ چیخنا چلانا اور دھونس دھاندلی کا استعمال تب شروع ہوتا ہے جب دلیل ختم ہو جائے آپکے درجنوں مشورے اور بیسیوں تجاویز میرے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر میں دو پر اپنا نقطہ نظر پیش کرونگا۔ اولاً عمران خان کو یہ کالم تب یا اب پہچانے کے حوالے سے مجھے ایسے ہر موقع پر مولانا امین احسن اصلاحی کا ایوب خان کے صدارتی الیکشن کے موقع پر لکھا ہوا وہ کالم یاد آ جاتا ہے جس میں انہوں نے اسلام میں عورت کی حکمرانی کو ناجائز قرار دیا۔ چونکہ مادر ملت بھی صدارتی انتخاب لڑ رہی تھیں، ایوب خان کو مولانا کے اس مضمون یا فتوٰی نما آرٹیکل کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے مولانا سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ، سرکاری اہلکاروں نے کہا مولانا آپ گورنر ہاﺅس میں تشریف لے چلیں اور صدر صاحب وہیں پر ہیں مولانا نے کہا بھائی میں تو نہیں ملنا چاہتا ملنا تو وہ چاہتے ہیں ۔ صدر کو جب معلوم ہوا کہ مولانا اس پر رضا مند نہیں تو انہوں نے فون پر بات کرنے کی آپشن پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
قصہ مختصر مولانا اصلاحی کے گھر ہنگامی بنیادوں پر فون لگوایا گیا۔ صدر ایوب خان نے بات کی۔ مولانا نے انتہائی شائستگی سے ان کی بات سنی اور جب صدر نے کہا مولانا آپ کے اس مضمون سے مجھے بہت فائدہ پہنچے گا‘ آپ کا بہت شکریہ تو مولانا بولے جناب صدر میں نے ایک دینی مسئلہ بیان کیا ہے۔ آپ کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں نہ میرے پیش نظر تھا نہ میں شکریہ کا مستحق ہوں۔ تو معزز قارئین میں نے عمران کے کردار اور اسکی کمٹمنٹ اور اس میں کچھ کرنے کے جنون کو محسوس کرکے یہ کالم لکھا تھا۔ اس سے ایک دو ملاقاتوں میں جو خالصتاً قومی سطح کے معاملات پر گفتگو تک محدود تھیں‘ اسے سیاست میں آکر قوم کی خدمت کرنے کی آپشن کو نظرانداز نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے یہ کالم پڑھا ہے یا نہیں اس کا مجھے پتہ نہیں۔
ایک دوسری دلچسپ بات اس حوالے سے میرے مو¿قف کو سمجھنے یا سمجھانے میں شاید زیادہ معاون ثابت ہو۔ 2008ءکے انتخابات سے تین دن پہلے پی جے میر نے اے آر وائی پر ایک پروگرام کیا جس میں میرے علاوہ زعیم قادری طارق عظیم جو (ن) لیگ کی حکومت میں کبھی سفیر بنا دیئے گئے تھے‘ مجھے جب اینکر نے پوچھا کیا ہونا چاہئے تو میں نے کہا تین روز بعد ہونےوالے انتخابات میں اگر (ن) لیگ جیت جائے تو جاوید ہاشمی کو (ق) لیگ جیت جائے تو چودھری پرویزالٰہی کو اور پیپلزپارٹی جیت جاتے تو یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم ہونا چاہئے۔ پیپلزپارٹی جیت گئی‘ گیلانی صاحب وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے کچھ اخبارنویسوں کو کھانے پر بلایا۔ عباس اطہر مرحوم میرے ساتھ بیٹھے تھے‘ کہنے لگے وزیراعظم آتا ہے تو اسے بتانا کہ میں آپکے جیتنے کی صورت میںنے آپکو وزیراعظم بنانے کی بات انتخابات سے تین دن پہلے کر دی تھی۔ میں نے کہا شاہ جی مجھے تو بڑی شرم آتی ہے اس قسم کی بات کرتے ہوئے۔ وہ میرا نقطہ نظر تھا‘ درست ثابت ہوا۔ مجھے خوشی ہو گئی میرے لئے یہی کافی ہے۔ گپ شپ میں کئی بار بات کرنے کا موقع بنا مگر میری غیرت نے یہ گورا نہ کیا کہ میں ملک کے وزیراعظم کو یہ بتاﺅں اور خود کو اپنی نظروں میں گرا لوں کیونکہ مجھے کسی حکمران سے نہ کچھ لینا ہے نہ وہ کچھ دے سکتے ہیں۔ اب آخری بات کہ کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہئے۔ کیا ہوگا کی پیشن گوئیاں چل رہی تھیں۔ وہ میرا ایریا نہیں کیا ہونا چاہئے میں صرف اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ سیاسی منافقت اور سیاسی منافقین سے بچ کر اگر عمران خان نے میرٹ پر فیصلے کئے تو حکومت کو گرانے یا کمزور کرنیوالوں کو منہ کی کھانی پڑیگی۔ اس سلسلہ میں پنجاب کی حکمرانی کے بارے میں سینکڑوں لوگوں نے بڑی دردمندی سے مجھے اپنی رائے دینے کا کہا ہے تو معید پیرزادہ کے پروگرام میں اور کئی انتخابی جلسوں میں عمران خان یہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں صرف چودھری پرویزالٰہی کے دور میں ترقی ہوئی ہے۔ جب اینکر نے کہا اور شہباز شریف کے دور میں تو عمران بولے صرف اشتہاروں میں۔ چودھری پرویزالٰہی عمران کے اتحادی ہیں۔ غیرمشروط حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ (ن) لیگ کی پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں۔ محض جماعت سے وابستگی نہ ہونے کا بہانہ بنا کر چند خوشامدیوں اور چاپلوسوں یا بلاوجہ یہ اعلان کرکے وزیراعلیٰ تحریک انصاف سے ہی ہوگا ۔ جماعت میں اس بنیاد دپر انتشار پیدا کرنے والوں یا خودفریبی میں خود کووزیراعلیٰ سمجھ لینے والوں کی چال میں آکر اگر عمران خان نے ان میں سے کسی کو بنا دیا تو پنجاب کی حکومت چلانا ان کے بس میں نہیں ہوگا اور خرابی بسیار کے بعد اگر چودھری پرویزالٰہی کو بنایا گیا تو ان کیلئے مشکلات پر قابو پانا کافی مشکل ہوگا جو وقت پر فیصلے کی صورت میں انشاءاللہ پیدا ہونے سے پہلے اپنی موت آپ مر جائیں گی۔
روایت شکن عمران سے چودھریوں نے بھی روایت شکنی کو اپنایا اور چودھری پرویزالٰہی نے غیرمشروط حمایت کا اعلان کرکے ایک عظیم مقصد کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی ہے اور جو چھچھورے اینکر اس نوع کی خبریں دے رہے تھے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ نہ بننے کی صورت میں ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ مانگ لیا ہے وہ اگر اپنی غلطی، اعتراف ہی کر لیں تو کافی ہے‘ چودھری پرویزالٰہی وزیر‘ صوبائی اسمبلی کے سپیکر‘ وزیراعلیٰ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر‘ وفاق میں اپوزیشن لیڈر اور ڈپٹی پرائم منسٹر رہ چکے ہیں اور ہر اعتبار سے کامیاب رہے ہیں‘ یہ عہدے ان کیلئے بے حیثیت اور بے معنی ہونا چاہئیں اور اس کا انہوں نے ثبوت دیدیا ہے۔ عمران خان کیلئے ضروری ہے کہ اگر وہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں پر فوکس کرنا چاہتے ہیں تو اس کو قسم کے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے جو صوبے کی دردسری کو وفاق تک نہ پہنچنے دے۔ رہی بات ان اینکروں کی جو (ق) لیگ کی چار یا چھ یا آٹھ سیٹوں کی بات کرتے ہیں‘ اگر چودھری پرویزالٰہی کے سیاسی قد کاٹھ کا آدمی کسی جماعت سے ایک نشست حاصل کرنیوالا اتحادی بھی ہو تو اسے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا‘ ملک کے مفاد میں ہوگا۔ اور عمران خان ان گھسی پٹی باتوں اور روایات کو جو ان کے بے مہار ترجمان اچھال رہے ہیں‘ اہمیت دیکر اپنے ہی وژن کو دھندلا کرے گا کیونکہ چھوٹے لوگوں کی سوچ کو نافذ کرکے اپنی بڑی یا منفرد سوچ کو دبانے سے عمران خان اپنا‘ اپنی جماعت اور ملک سبھی کا نقصان کرے گا۔ مرضی خان کی‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔