امام صحافت مجید نظامی کی حیات
قلم ہاتھ میں تھاما۔ برادر بزرگوار جناب سعید آسی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے دل و دماغ میں پیہم سلگتی کیفیات کو الفاظ میں ڈھالنے کی مشق ستم جاری رکھی اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ قارئین تک پہنچانے کی ادنیٰ سعی کرتا رہا۔ قلم کی حرمت ’’ماں بہن کی عصمت کے مترادف‘‘ ہوتی ہے۔ شورش کاشمیری کے الفاظ ہمیشہ دل و دماغ میں جذب رہے۔ ماں باپ نے رزق حلال سے پرورش کی تو روز اول سے ظالم کے سامنے نہ جھکنے اور نہ بکنے کا علم ہاتھ میں تھما دیا۔ راہ زندگی میں احتجاج کی صدا ہمیشہ بلند رکھنے کا نقصان اٹھایا مگرضمیر کی عدالت میں کبھی سر جھکانے کی نوبت نہ آئی۔ زندگی سودوزیاں سے مبرا رہی۔ ذہن و قلب کے درودیوار پر اگتے خیالات و احساسات کو تلخ و شیریں الفاظ کے ساتھ معنی کے رشتوں سے ہم آہنگ کرتا رہا۔ یقین تھا کہ نئے پاکستان کا تاج محل زندگی کی رعنائیوں سے چارسو روشن کر دیگا۔ پورا یقین تھا کہ عمران خان ایسی سمت کا تعین ضرور کردینگے کہ جس سے ہم استحصال‘ ظلم و ناانصافی اور معاشی و سماجی ناہمواریوں کے گھنے جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرلیں گے۔ ایک سٹیٹس کو کے ٹوٹنے کے ثمرات سے عوام مستفید ہونگے۔ غریب اور امیر کا پاکستان ایک ہو جائیگا۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ سچ بات پر زہر کا پیالہ پینے کا چلن ختم ہو جائیگا جس کی مثالی ریاست کا خواب قائد اور اقبال نے دیکھا اسکی تکمیل کا بیڑا مجید نظامی صاحب نے اٹھایا تو میں بھی ایک قطرہ چونچ میں لے کر انکے قافلہ حق میں شامل ہو کر آتش نمرود کو ٹھنڈا کرنے کی تگ و دو میں لگا رہا۔ مگر زندگی نصف صدی میں آئیڈیل اجتماعی زندگی اور مثالی مدینہ ریاست کے خواب دیکھتے ہوئے پتہ چلا…؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے یہ دیکھا
آج سماجی تبدیلی کے خواب دیکھتے دیکھتے آرزوئوں کا تاج محل کھنڈر ہو گیا۔ پرانے پاکستان میں ہر رگ میں محشر برپا رہا مگر جنوں زدہ دل ہولے ہولے خود فریبیوں کا جال بنتے ہوئے دل کی حکایت خونچکاں لکھتے رہے۔ اگرچہ ہاتھ تو دوچند نہ ہوئے مگر اپنی بے کلی اور بے چینی کو خود ہی تھپکیاں دیتے رہے کہ شاید…؎
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
مگر جب نئے پاکستان میں لاچار اور مجبور خاندان پر نیکٹا کے اہلکاروں نے گولیوں کی برسات کر دی تو سہمے ہوئے بچے دیکھ کر لکھنے کیلئے ہر چیز پر سوال اٹھانا پڑتا ہے۔ اے دل فگار شاعر! تم سے بہتر کون جانتا ہے کہ سوال ہجر ہے‘ طاقتور حکمرانوں کے دروازوں پر سوالوں کی دستک دیتے دیتے انسان کے ہاتھ لہولہان ہوجاتے ہیں جس پر ہر خواب دیکھنے والے کو سوالوں کی فصل کی آبیاری خود ہی کرنا پڑتی ہے۔ پتہ نہیں کس ترنگ میں پیرومرشد نسیم انور بیگ کہہ گئے کہ سوال کرتے رہا کرو چاہے اس کا جواب ملے یا نہ ملے۔ کیونکہ سوال جوابوں سے زیادہ معتبر ہوتے ہیں۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں بتاتا کہ یہ پوسٹ ماڈرن ازم کا زمانہ ہے جہاں ہر شخص قبیلے اور گروہ کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے جسے وہ اپنے تعصبات کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ آج پیمبر خدا کے سچ پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ہم سب نے اپنا اپنا سچ الگ الگ ٹکڑوں میں سینچ لیا ہے۔ آج کا سچ ایک ایسا ہاتھی ہے جسے صرف اندھے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ حکمرانوں کا سچ سنیں تو پوری قوم چور اور ڈاکو ہے۔ اپوزیشن کا سچ سنیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان سے بڑا خدمت گزار اس ملک میں پیدا نہیں ہوا۔ قائد محترم مجید نظامی نے ہمیشہ یہ سبق دیا کہ ظالم اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرو۔ مگر آج کلمہ حق صدابصحرا ہے۔ ذہن ماؤف ہو گیا۔ برادر خورد پرانے پاکستان میں بھی شہبازشریف کی رعونت کا شکار رہا تو نئے پاکستان میں بھی ریاستی بزرجمہروں کے ہاتھوں ذہنی اذیت اور دبائو کا شکار ہے کہ وہ ہر حال میں سابق حکمرانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔ صاف پانی نہ سہی تو لاہور‘ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ میں ہی وہ کچھ کہنے کی حامی بھرلے جس طرح عابدسعید شاہد خاقان عباسی کیخلاف بیان دینے کی حامی بھر چکا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ کیا بیاں دوں پرانے حکمران میرے دشمن تھے تو کیا میں بھی ان کیخلاف جھوٹی گواہی دے دوں۔ وہ مکافات عمل بھگت تو رہے ہیں۔ برادر بزرگوار سعید آسی کہتے ہیں کہ لکھنا شروع کرو‘ رائٹرز بلاک کی کیفیت سے نکلو‘ پوچھتا ہوں ’’اے حساس دل دانشور اور شاعر‘ کیا لکھوں! ہر طرف مخلوق خدا بھوک‘ افلاس بیروزگاری کا شکار ہے‘ قبروں پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے‘‘۔
منڈی فیض آباد کا سبزی فروش محمد افضل بھی لکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ اس کم پڑھے لکھے مگر باشعور اور بااخلاق نوجوان کو کیسے بتائوں۔ جب حکمرانوں اور طاقتور صاحبان اختیار اور اقتدار کوعوام کے ٹیکسوں کی کمائی پر آسودہ حال زندگی گزارتے دیکھتا ہوں اور ویران آنکھوں والے مزدوروں اور خستہ حال کسانوں‘ بچوں اور عورتوں کو بجلی‘ گیس کے بلوں کے ہاتھوں خودکشیاں کرتے دیکھتا ہوں۔ حکمرانوں اور طاقتور ریاستی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے تو میرے لکھنے اور نہ لکھنے سے کیا فرق پڑیگا۔ مگر میرے رہبر (Mentor) سعید آسی کہتے ہیں‘ ہمیں اپنا فرض تو پورا کرنا ہے لہٰذا ’’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ مگر کیا لکھوں کہ نااہلی کرپشن سے بڑا جرم ہے؟ کیا زبان اور قلم مصلحت آمیزی کا شکار ہو کر طاقتور طبقے کا سچ لکھنا شروع کردوں اور مجید نظامی مرحوم کی تربیت بھول جائوں سوچا تھا کہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتوں کی باہمی لڑائی میں آخری فتح غریب عوام کی ہوگی۔ مگر جب ہر رہبر عوام کی امیدوں اور آرزوئوں کے چراغ گل کر دے تو پھر کیا یہ لکھوں بقول عدم…؎
ہر مسافر کو باخبر کر دو
یہ میرے تجربے کا جوہر ہے
رہبروں کی فریب کاری سے
ہزنوں کا خلوص بہتر ہے
مگر ہاتھوں کی جنگ میں غریبوں کی زندگیاں اجیرن بن گئیں ۔ مڈل کلاس غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے۔ خام ملکی پیداوار کا حجم 330 سے کم ہو کر 280 ملین ڈالرز ہوگیا ہے مگر حکومت نے 1700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر غریبوں کی زندگیاں تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ دو وقت کا نوالہ غریبوں کے منہ سے چھن چکا ہے۔ روپے کی 30 فیصد قدر کم ہونے اور بجلی‘ گیس‘ فون‘ ادویات‘ آٹا‘ دالیں‘ چینی پر ٹیکس لگنے سے ہماری زندگی تومفلس کی قبا بن چکی ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے دکھائی دیتے ہیں۔ آج غریب زندہ درگور ہیں…؎
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
سعید آسی صاحب کیا یہ لکھوں! کہ ستر سال ہو گئے ہیں‘ مداری آتے ہیں اور اپنی اپنی ڈفلی پر راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ بہروپیے روپ بدل بدل کر راہرو کا روپ دھارتے ہوئے ہر وقت ہمیں پند و نصائح کرتے ہیں۔ ایک روٹی کھانے کا درس دیتے ہیں‘ بھوک اور افلاس ایسی لعنت ہے جس سے ہر شخص کو پناہ مانگنی چاہیے۔ ایسے بھوکے اور ننگے جو محض دو ڈالر یومیہ کماتے ہیں‘ کی تعداد 12 کروڑ سے زائد ہے۔ بتائیں مجھے وہ کیا پاکستان کے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے ٹاپ سربراہان اور انکے ساتھیوں کی آسودگی کے ‘پے قربان کریں۔ ہاں مشرق وسطیٰ میں غریبوں کے جسمانی اعضاء دل‘ گردے‘ آنکھیں‘ جگر مہنگے داموں بک سکتے ہیں‘ بیچیں اور ملک کے قرضے اتارلیں۔ ن م راشد سوال پوچھتے ہیں کہ کیوں نہیں لکھتے‘ میری خاموشی پر خود ہی جواب دیتے ہیں…؎
زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی تو تم بھی ہو‘ زندگی تو ہم بھی ہیں
آدمی سے ڈرتے ہوئے‘ آدمی تو تم بھی ہو
آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے ہو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ہاں‘ ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
ہاں تو ابھی سے ڈرتے
قارئین! یقیناً اب میں ’’ان کہی اور‘‘ ابھی سے ڈرتا ہوں۔ نہیں یقین تو پھر ڈاکٹر شاہد مسعود سے پوچھ لیں۔ عرفان صدیقی صاحب سے پوچھ لیں۔ ہزاروں بیروزگار صحافتی کارکنوں سے پوچھ لیں کہ شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایہ تھا‘ پاک ہوگیا۔ نہیں یہ کبھی پاک نہیں ہوگا اور نہ ہی رات کا لبادہ بھی چاک ہوگا۔ بقول شعیب بن عزیز…؎
رات ڈھلتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا