عیدالاضحی اور قربانی
علامہ منیر احمد یوسفی
سال میں دو دن ایسے ہوتے ہیں جن کو مسلمان بطور عید مناتے ہیں۔ ایک کو عید الفطر کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا عیدالاضحی یا عید قربان کا دن کہلاتا ہے۔ رسول اکرم ۔ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ نے سال میں دو عیدیں مقرر کر رکھی ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔آپ کے استفسار پر مدینہ والوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں یہ دو دن کھیل کود میں گزارے جاتے تھے۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دن عطا فرمائے ہیں یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی۔
دور جاہلیت کی عیدوں اور اسلامی عیدوں میں دو طرح سے فرق تھا۔ پہلا فرق یہ کہ ان کے ہاں محض موسم کی تبدیلی اور تاریخوں کے بدلنے پر عید منائی جاتی تھی جبکہ اہل اسلام روزہ اور قربانی کی صورت میں عبادت خداوندی کی تکمیل پر بارگاہ الہٰی میں ہدیہ تشکر کے طور پر عید مناتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جاہلیت کی عیدیں محض کھیل کود اور لہو و لعب میں گزرتی تھیں جبکہ مسلمان عید کے دن اپنے خالق و مالک کے حضور سربسجود ہو کر زبان حال سے اعلان کرتا ہے ’’یا الہٰی! میری خوشی اور غم کے لمحات تیرے ذکر کے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہوتے‘‘ یہی نہیں بلکہ کامل و اکمل دین اسلام نے عیدین کے موقعہ پر اہل ثروت کو غرباء و مساکین کے ساتھ ہمدردی اور مونست کے عملی اظہار کا پابند بناتے ہوئے عیدالفطر کے موقع پر صدقہ فطر اور عیدالاضحی کے موقعہ پر قربانی کو واجب قرار دیا-
عیدالاضحی کو قربانی کی نسبت سے عید قربان کہا جاتا ہے۔ لفظ قربان کا مادہ اشتقاق ’’قرب‘‘ ہے جو نزدیکی کے معنی میں آتا ہے - بنا بریں قربان ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو کسی مقصد کے حصول کو قریب کر دے یعنی قرب مقصد کا ذریعہ و واسطہ قربانی کہلاتا ہے۔ لہذا اسلامی اصطلاح میں جو عمل قرب خداوندی کا باعث ہو وہ قربانی ہے۔غور کیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو کر سامنے آتی ہے کہ قربانی انسانی زندگی کا ماحصل ہے اس لئے کہ دولت و منصب سے لے کر درجات روحانی کے حصول تک کوئی بھی مرحلہ ایسا نہیں جہاں قربانی دینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کے درمیان باہمی نزاع پر فیصلہ کے لئے دونوں کی طرف سے قربانی پیش کی گئی ۔قابیل زراعت پیشہ تھا اس نے غلہ پیش کیا اور ہابیل بکریوں کا مالک تھا اس نے نہایت عمدہ بکری بطور قربانی پیش کی۔ ہابیل حق پر تھا اس کی قربانی قبول ہوئی اور قابیل کی قربانی شرف قبولیت حاصل نہ کر سکی۔ سورۂ مائدہ کی آیات ۲۷ تا ۳۱ میں بیان کئے گئے اس واقعہ کی تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حیات انسانی کے بالکل آغاز میں بھی قربانی کا تصور تھا کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی تاکہ اللہ کے دیئے ہوئے بے زبان چوپایوں پر ان کا نام لیں‘‘-(القرآن)
آیت مذکورہ بالا میں نہ صرف قربانی کا ذکر ہے بلکہ جانوروں کے ذبح کی صورت میں قربانی کا حکم ہے۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا اور آپ صحیح سلامت آگ سے باہر تشریف لائے تو نمرود نے کہا ’’میں نے تمہارے رب کی قدرت و عظمت کا جو مظاہرہ دیکھا ہے اس کے پیش نظر میں اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا چاہتا ہوں‘‘- حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا جب تک تو اپنے دین پر قائم ہے اللہ تبارک و تعالیٰ تیری قربانی قبول نہیں فرمائے گا- اگرچہ نمرود اپنے باطل دین کو نہ چھوڑ سکا لیکن اس نے چار ہزار گایوں کی قربانی پیش کر دی‘‘- (الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد اول ص۱۰۰- )
نمرود کا یہ واقعہ بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قربانی بالخصوص جانور کے ذبح کی صورت میں نہایت قدیم تصور ہے اور ہر دور میں یہ مروج رہا۔پھر ایک وقت ایسا آیا جب تاریخ نے ایک تعجب خیز واقعہ کو جنم دیا جس کا نظارہ چشم فلک نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ آئندہ کبھی دیکھے گی- ہوا یوں کہ ایک عظیم شخصیت جسے خلیل اللہ ؑکے لقب سے نوازا گیا جنہیں عالم انسانیت کی امامت کا سہرا پہنایا گیا اور جو اپنے رب کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے اس جدانبیاء کرامؑ کو ایک عظیم امتحان میں ڈال کر ان کی اطاعت گزاری اور وفاشعاری کو آنے والی نسلوں کے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا- حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ہوا کہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل ؑ کو ہماری راہ میں قربان کر دو‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس مقبول و محبوب بندے نے اپنے فرزند دلبند کو بلاتردد قربانی کے لئے پیش کر دیا اوروفاشعار بیٹے نے بھی چون و چرا کئے بغیر سرتسلیم خم کر دیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو بارگاہ خداوندی میں ا س قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اسے تاقیامت سنت ابراہیمی ؑ کے طور پر برقرار رکھا گیا۔
نبی کریم ؐسے صحابہ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہؐیہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی یادگار ہیں‘‘-
چنانچہ رسول اکرم ؐقربانی دیا کرتے تھے- حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں،’’رسول کریم ؐ مدینہ طیبہ میں دس سال قربانی کرتے رہے‘‘-(مسند احمد احمد جلد۷ص۸۵) بلکہ آپ ؐنے قربانی کو عیدالاضحی کا بہترین عمل قرار دیا- حضرت عائشہ صدیقہؓسے مروی ہے نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا’’ عید کے دن ابن آدم کے تمام اعمال میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین عمل قربانی کرنا ہے‘‘-(مشکوٰۃ ص۱۲۸)
:::::::::::::::::::::::::
حدیث مذکورہ بالا میں نبی اکرم ﷺ نے ’’اھراق الدم‘‘ (خون بہانا) کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام میں جانور کا ذبح کرنا مقصود ہے- اس کی جگہ صدقہ و خیرات کرنا قربانی کا بدل نہیں ہو سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی عبادات خاص حکمت پر مبنی ہیں جس کو سمجھنا ضروری ہے-
جس طرح رسول اکرم ﷺ قربانی دیا کرتے تھے اسی طرح صحابہ کرام ث کا بھی یہی معمول تھا- حضرت نافع کا بیان ہے ’’ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مدینہ طیبہ میں قربانی کی‘‘- حضرت نافع مزید فرماتے ہیں ’’مجھے حکم دیا کہ میں حضرت عبداللہ )ص (کے لئے مینڈھا خریدوں پھر اسے عید کے دن عیدگاہ کے پاس ذبح کروں‘‘- حضرت نافع فرماتے ہیں ‘ میں نے ایسا ہی کیا ’’پھر وہ جانور ذبح کے بعد حضرت عبداللہ ص کے ہاں بھیج دیا گیا اس وقت حضرت عبداللہ ص بیمار تھے حتیٰ کہ آپ عید کی نماز میں شریک نہ ہو سکے‘‘- ( موطا امام مالک ص۱۸۷- )
اس ضمن میں متعدد احادیث کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں- ان چند احادیث کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے بتانا یہ ہے کہ قربانی‘ ابراہیمی یادگار ہے اور خود رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قربانی کرتے رہے- چنانچہ حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر صسے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟ آپ نے فرمایا رسول اکرم ﷺ نے قربانی کی اور آپ ﷺ کے بعد والے مسلمانوں نے بھی قربانی کی اور قربانی کی یادگار جاری ہے-(سنن ابن ماجہ ص۲۳۲)
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا ’’مجھے حضور ﷺ نے حکم دیا تھا کہ’’ میری طرف سے قربانی کیا کرنا- چنانچہ میں آپ ﷺ کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرتا ہوں‘‘-
امام اعظم ابوحنیفہ‘ امام محمد‘ امام زفر‘ حسن اور ایک قول کے مطابق امام ابویوسف (رحمہم اللہ عنہم) بھی قربانی کو واجب سمجھتے ہیں- امام مالک سے بھی وجوب کا قول منقول ہے-امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیہما الرحمہ قربانی کو سنت قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ترک قربانی کی اجازت نہیں دیتے-امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’ قربانیاں سنت ہیں‘ میں قربانی کے ترک کو پسند نہیں کرتا‘‘-