مسلمانوں کا زوال ‘ ترک سکالر کی نئی تھیوری

نائن الیون کے سانحہ کے بعد مسلمان ملکوں میں انتہا پسندی، شدت پسندی، آمریت اور پسماندگی کے بارے میں عالمی میڈیا اور یونیورسٹیوں میں تبصرے اور تجزیے کیے جارہے ہیں۔ 2009ء میں دوتہائی جنگیں اور ایک تہائی فوجی تصادم مسلمان ملکوں میں ہوئے۔ امریکہ میں موجود تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں49 مسلم ممالک میں صرف دس ملکوں میں جمہوری نظام تھا۔ دنیا کے 195 ممالک میں سے کم و بیش 120 ممالک میں جمہوری نظام تھے۔ مسلم ممالک میں معیشت اور ہیومن ریسورس میں ترقی بڑی تشویشناک رہی ہے۔ مسلم ممالک میں شدت پسندی ، آمریت اور پسماندگی کے سلسلے میں روایتی طور پر تین نکتہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ اسلامی تاریخ اور اسلام کے بارے میں لکھی جانے والی کتب کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مغربی ممالک کی کلو نیل پالیسیوں اور مسلم ممالک کے وسائل کے تاحال جاری استحصال کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اس نظریے کو بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، یہ سوچ دنیا کے اسلامی اور سیکولر دونوں حلقوں میں بڑی مقبول ہے۔ تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں چونکہ ریاستی ادارے مستحکم اور فعال نہیں بنائے جا سکے، اس لیے یہ ممالک پسماندگی کا شکار ہیں۔ سان ڈیاگو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ترکی النسل سکالر احمت ٹی کورو نے اپنی نئی کتاب میں ان تینوں نکتہ ہائے نظر سے اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کی نئی تھیوری پیش کی ہے، ان کی نئی کتاب کا نام ہے۔ ''Islam authoritarianism and underdevelopment a global and historical comparison" منفرد دلچسپ اور تحقیقی کتاب کے مصنف کورو نے 8ویں صدی سے 12ویں صدی تک مسلمانوں کے فلسفیانہ اور معاشی کارناموں کی روشنی میں مسلم ممالک کے بارے میں موجودہ آراء اور تجزیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ مسلمان اپنے شاندار ماضی کے حوالے سے آج بھی ترقی کر سکتے ہیں اور اسلام ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ مسلمانوں کا سیاسی سماجی اور معاشی زوال مغربی ممالک کی کلونیل پالیسی سے پہلے ہی 18 ویں صدی میں شروع ہو گیا تھا۔ مصنف کے خیال میں افراد ہی ریاستی اداروں کو منظم اور مستحکم کرتے ہیں، ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ اسلام کے عروج کے دور میں کس شعبے اور طبقے کے افراد نے ریاستی اداروں کو منظم کیا اور ترقی کو یقینی بنایا۔ کون سے طبقے کے لوگ تھے جو بعد میں زوال کا سبب بنے۔ کورو نے اپنی کتاب میں مذہبی، سیاسی، معاشی اور دانشور طبقات کے ایک دوسرے کے تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ مسلم یا غیر مسلم ممالک کی ترقی کا انحصار انہی طبقات کے افراد کے آپس کے تعلقات پر ہوتا ہے۔ مصنف کی رائے میں مسلمانوں کا عروج ممتاز دانشوروں اور تجارت پیشہ افراد کی وجہ سے ہوا۔ البتہ 11ویں صدی میں مسلم ممالک جمود اور زوال کا شکار ہونے لگے۔ مذہبی رہنماؤں اور ریاست نے آپس میں اتحاد کر لیا جو آج تک جاری ہے۔ مفکر دانشور اور تاجر غیر موثر ہو گئے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلم فلاسفر اور تاجر کلیدی کردار کے حامل تھے۔11 ویں صدی میں مذہبی علماء اور افواج نے آپس میں افسوسناک اتحاد کر لیا۔ یہ اتحاد جو آج بھی جاری ہے اس کی وجہ سے مفکرین اور تاجروں کو تخلیقات اور ایجادات کے مواقع نہیں مل رہے جو ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ مصنف کے مطابق علماء اور ریاست کا اتحاد قرآن اور سیرت کی تعلیمات کا تقاضہ نہیں ہے۔ مصنف کے مطابق مذہب اور سیاست کا امتزاج ظہور اسلام سے پہلے کا اصول ہے جسے غلط طور پر اسلام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ 8ویں سے 12ویں صدی تک مسلمانوں نے طب سائنس فلسفہ ریاضی علم نجوم زراعت اور بینکاری میں ترقی کی۔
اسلام کے ابتدائی دور میں بھی مفکرین اور اسلامی سکالرز نے اپنے آپ کو سیاست اور ریاست سے دور رکھا۔ اسلامی اسکالرز یا تو خود تجارت کرتے تھے یا ان کو تاجروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ گیارہویں صدی کے نصف میں صرف چار ہزار مفکرین کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی جبکہ نوے فیصد مفکرین کو تاجر یا متوسط طبقے کے افراد سرپرستی کرتے تھے۔ ریاست اور سیاست سے الگ رہ کر اسلامی سکالرز آزادی کے ساتھ تحقیقی کام کر سکتے تھے، وہ مسلمان حکمرانوں کی حکمرانیت سے مطمئن نہیں تھے۔ بنو امیہ کے حکمرانوں کو مذہبی علماء کا تعاون حاصل نہ ہوسکا کیونکہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور اہل بیت کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ امام ابو حنیفہ امام مالک اور امام شافعی نے حکمرانوں کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ریاست اور سیاست سے الگ رکھا۔ حکمرانوں کی حکم عدولی کی وجہ سے ان اسلامی سکالروں کو جبر و تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ مصنف کے مطابق سلطنت عثمانیہ اور مغلوں کے دور میں مدرسوں اور مذہبی رہنماؤں کے ریاست اور سیاست میں غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے مسلمان ملکوں کی ترقی اور تخلیق کی رفتار سُست پڑ گئی، تاجر اور مفکر اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔ مصنف نے روایتی تجزیوں سے ہٹ کر نیا تجزیہ پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مسلمان ملک مغربی ممالک کی کالونیل پالیسی ریاستی اداروں کے منظم نہ ہونے اور مذہبی عقائد کی وجہ سے پسماندہ نہیں ہیں بلکہ علماء اور ریاست کے اتحاد اور اجارہ داری کی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔ مسلمان ممالک کو ایک بار پھر زوال سے نکالنے کا آپشن یہ ہے کہ مفکرین اور تاجر طبقے کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کی بنیاد پر مسلمان ریاستیں پسماندگی اور جمود سے باہر نکل سکیں۔کتاب کے مصنف کورو کی رائے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات کے مطابق ہے جنہوں نے اجتہاد تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی پر زور دیا تھا تاکہ پاکستان جمود سے باہر نکل سکے اور ترقی کر کے عالم اسلام کا مضبوط تعلیمی اور سائنسی قلعہ بن سکے۔ پاکستان میں ریسرچ کو اہمیت نہیں دی گئی اور مفکرین کی سرپرستی کرنے کے بجائے ان کو نظر انداز کیا گیا۔ نوائے وقت کے محترم قارئین اور ان کے اہل خانہ کو عید الاضحیٰ کی دلی مبارکباد اللہ کرے کہ یہ عید پاکستان اور عوام کے لیے خوشیوں کی نوید ثابت ہو۔

ای پیپر دی نیشن