ایک مشہور فارسی شعر کا ترجمہ ہے، ’ اگر یہی مکتب ہیں اور یہی مُلّا ہیں تو بچوں کا کام تمام ہوجائے گا۔‘ اس شعر میں مکتب اور مُلّا کی علامتیںقدیم نظامِ تعلیم کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ صدیوں تک ہمارے ہاں درس مساجدمیں ہوتا تھا۔ ایک جیسا نظامِ تعلیم و تدریس جاری وساری تھا، جس کی ہندوستان میں ایک نمایاں مثال درسِ نظامی ہے ۔ اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کرنے کا یہ موقع نہیں۔ انگریزوں کی آمد کے بعد یہ نظام یکسر تبدیل ہوگیا۔ سب سے پہلے 1857ء میں کلکتہ ، بمبئی اور مدراس میں تین یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جن کی ذمہ داری نصاب سازی کی تھی۔ ان نصابات کے مطابق تحریری امتحانات لیے جاتے تھے اور پاس ہونے والوں کو ڈگریاں دی جاتی تھیںلیکن ان یونیورسٹیوں میں تدریس کے لیے شعبہ جات نہیں بنائے گئے۔
1882ء میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی، جہاں بعض مضامین میں تدریس کا آغاز ہوا۔گویا مکتب اور مُلّاکی اصطلاحیں بدل گئیں؛ مکتب کو سکول/کالج/ یونیورسٹی کہا جانے لگا اور مُلّا کے لیے ماسٹر یا پروفیسر کے الفاظ آگئے۔پورے ملک میں سکول اور کالج بنائے گئے۔ اکثر جگہ مڈل سکول تو ’لوکل باڈیز‘ کے تحت چلتے تھے مگر زیاد ہ تر ہائی سکولز گورنمنٹ کے زیر سایہ تھے،جہاں اساتذہ کا تقرر محکمۂ تعلیم کرتا تھا۔ انٹر او ر ڈگری کالج بھی عموماً حکومت ہی قائم کرتی تھی۔ بعض سکول اور کالج کسی انجمن کے تحت بھی چلائے جاتے تھے اور بعض بڑے شہروںمیں میونسپل کمیٹیوں نے بھی یہ نیک کام سنبھال رکھا تھا۔ایک طویل عرصے تک یہ برا بھلا نظام جاری رہا۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے تقرر سے لے کر ان کے تدریس معیار کو جانچنے تک کے لیے باقاعدہ طریق کار تھا۔ اساتذہ کی کار کردگی کا معائنہ کیا جاتا اور تسلی بخش معیار ہوتا توانھیں ترقیاں دی جاتیں۔ پھر ہم آزاد ہوگئے اور پھر مادر پدر آزاد۔
سب سے پہلے ہمارے سیاست دان اقتدار کی خواہش میں اخلاق و اقدار سے آزاد ہوئے۔ تشکیلِ پاکستان کے فوراً بعد پنجاب میں ممدوٹ دولتانہ ’رسہ کشی‘ سے آغاز ہوا۔ پھر ملٹری نے راستہ بنانا شروع کیا۔ اس کے باوجود 1958ء تک نظام کسی حد تک ٹھیک کام کررہا تھا۔ پھر ایوب خان نے براہِ راست اقتدار سنبھال لیا۔ تعلیم کا حال تو ویسے کا ویسا ہی رہا۔ کچھ ڈیم ضرور بنے مگر قرضوں کے ذریعے ترقی کی کوشش بالآخر برے اثرات پیدا کرکے رہتی ہے۔ یہاںسے سلسلہ در سلسلہ قرضے بڑھتے گئے اور اب قرضے جہاں تک پہنچ چکے ہیںان سے جان چھڑانا ممکن نہیں لگتا۔ پھر ایوب نے جو آئین دیا اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں نمایاں حصہ لیا۔ پھر1965ء کی جنگ نے تباہی کا آغاز کیا۔ ملک اسی جنگ کے نتائج سے چند سال بعد دولخت ہوگیا۔ پھر بھٹو نے قومیانے کی پالیسی سے جو کچھ بچ رہا تھا اسے بھی ٹھکانے لگانے کی راہ ہموار کی ۔ تعلیمی اداروں کو قومیانے کی وجہ سے یہ ادارے مزید انحطاط کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد ضیا الحق ، نواز شریف، بے نظیر، پرویز مشرف وغیرہ وغیرہ میں سے کسی کو تعلیم کی اہمیت کا کوئی احساس نہیں تھا۔ فضول قسم کے تجربات کے ذریعے رہی سہی کسر بھی نکال دی گئی جس کی ایک مثال دانش سکولوں کا قیام ہے۔
اب تبدیلی سرکار اور ان کے وزیروں ،مشیروں کو بھی کچھ معلوم نہیں کہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کیسے کی جائے؟ ابھی تک بے شمار بچے سکول نہیں جاتے۔ ہائی سکولوں میں استادوں کا تقرر نہیں ہوتا۔ سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ کہیں اردو کا استاد ریاضی پڑھا رہا ہے اور کہیں ریاضی کا استاد انگریزی پڑھانے پر مجبور ہے۔ ڈگری کالجوں میں بھی لاتعداد مضامین کے اساتذہ موجود نہیں اوراگر موجود ہوں تو انھیں ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں۔ پرنسپل استادوں کی تنظیموں سے ڈرتے ہیں اور استاد طلبہ سے خائف رہتے ہیں۔
اب توشاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے
جامعات کے حالات بھی چنداں بہترنہیں۔ اس میں کچھ حصہ تو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا ہے اور باقی حصہ جامعات کے ارباب اختیار کا لیکن اساتذہ بھی کسی طرح بری الذمہ نہیں۔ متعدد اساتذہ مرضی سے کلاسوں میں جاتے ہیں۔بغیر تیاری کے پیریڈ گزارکر کلاس سے باہر آجاتے ہیں۔ تحقیقی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں اور اگر وقت ہو بھی تو الاماشاء اللہ ان میں سے اکثر ’اوخویشتن گم است کرا رہبری کند‘(وہ خود ہی گمراہ ہے تو کس کی رہبری کرے گا) کی ناقابلِ تقلید مثالیں ہیں۔ اساتذہ درس وتدریس و تحقیق کی بجائے اپنے اپنے تعصبات اور ترجیحات میں مبتلا ہیں۔ شاگردوں کو بھی اپنی سیاست میں ملوث کرتے ہیں۔ اپنے اپنے شعبوں میں ان لوگوں کو ’بھرتی‘ کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یہ خیال ہوں کہ جامعہ کی سیاست میں میرے مددگار ہوں گے۔غالباً جامعات سے بے تعلق افراد کو یہ غلط فہمی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں کم ہیں اس لیے وہ گزر اوقات کے لیے تدریس کے علاوہ کوئی اور کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے گزارش ہے کہ جامعات کے بیشتر اساتذہ اکیس گریڈ کے فل پروفیسر بن چکے ہیں۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر بیس گریڈ میں ہیں۔ ان کی تنخواہیں دو دو لاکھ سے کم نہیں ہیں۔ جامعات ہی میں ان کے دوسرے ذرائع آمدنی بھی ہیں۔
کئی سال پہلے میں خود بھی اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ شاید تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے اساتذہ تدریس کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے۔ اب معلوم ہوا کہ اسباب کچھ اور ہیں۔ اساتذہ کی بنیادی ضروریات لازماً پوری ہونی چاہئیں مگر اس پیشے کی طرف ان لوگوں کو آنا چاہیے جوفطری استاد ہوں ، جن میں پیشے سے لگاؤ ہو اور جن کی طبائع میں کچھ فقروقناعت بھی ہو ورنہ انھیں بیورو کریٹ بننا چاہیے اور اگر اس کی قابلیت نہ ہو تو وہ چھوٹے انتظامی عہدے حاصل کریں جہاں تنخواہ بے شک کم ہو لیکن ’فضل ربی‘ زیاد ہ ہو۔ یہ نہیں کہ کچھ اور نہ بن پائے تو استاد بن گئے۔
ہمارے ملک میں سوالوں کا سوال یہ ہے کہ اس بگڑے نظام کی اصلاح کا آغاز کیسے کیا جائے؟ کسی بھی ملک کا پورا نظام باہم مربوط ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ سب کچھ ویسا ہی رہے اور تعلیمی ادارے ٹھیک ہوجائے۔اگر سیاست دان اپنا اپنا رویہ نہ بدلیں، اسی طرح سفید اور خاکی پوش مقتدر لوگ اپنی اپنی روش پر قائم رہیں، نظامِ انصاف غریب غربا کی بجائے دولت مندوںکا ساتھ دے تو نظامِ تعلیم ہرگز بہتر نہیں ہوسکتا۔ علامہ اقبال نے فلسفۂ خودی اور فلسفۂ بے خودی کے ذریعے یہ پیغام دیا تھا کہ اصلاح کا آغاز فرد سے کیا جائے اور پھر یہ افراد قوم کی اصلاح کریں لیکن فرد کی اصلاح کون کرے گا؟ جب سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہوتو فرد کی اصلاح ناممکن ہے ۔ جو فردمعاشرے کے برخلاف چلتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا وہ دو دھ کی مکھی کی طرح باہر نکال پھینکا جائے گا۔ پھر اصلاح کا آغاز کیسے ہو؟ اس پر میں آئندہ کسی کالم میں اظہارِ خیال کروں گا۔ بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
٭…٭…٭