حکیم سید سرو سہارنپوری …کچھ یادیں کچھ باتیں

Aug 01, 2021

چیرمین حکیم سرو سہارن پوری حکیم سید محمود احمد سروسہانپوری اورحکیم سید حسین محمود سہانپوری کے والد  تحریک پاکستان کے رہنما حکیم سید سرو سہارن پوری کی نویں برسی دو اگست 2021 بروز سوموار  انکی رہائش گاہ سٹلائٹ ٹائون میں عقیدت و احتشام سے منائی جائے…حکیم محمود احمد صاحب جن کا تعلق سہارنپور یو پی کے حکماء کے خاندان سے تھا غالباً وہ اس خانوادہ اطباء کی ساتویں پشت سے تعلق رکھتے تھے، حکیم صاحب  غیر معمولی شخصیت کے حامل فرد تھے۔ بطور طبیب ان کا تعلق ہزاروں آدمیوں سے رہا ہوگا، لیکن اس سے بڑھ کر وہ ایک داعی اسلام، مبلغ، شاعر، ادیب اور اسلامی مقاصد کے لئے انتھک جدوجہد کرنے والے ایک نامور شخص تھے جنہوں نے ہزاروں آدمیوں کو اپنے قول وعمل سے متأثر کیا۔ میں نے ان کو طالب علمی کے زمانہ میں غالباً 1968 میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ ایک جوان رعنا شخص تھے خوش پوش ہنس مکھ اور ایک وسیع حلقہ تعارف رکھنے والے۔ بطور شاعر ’سرو‘ تخلص رکھتے تھے اور زیادہ مشق سخن کا موضوع سیرت ہی کا اختیار کیا اور ایک زمانہ سے داد وصول کی۔ایسے لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں جو ایک نظریہ حیات کو سوچ سمجھ کر اختیار کریں اپنی عملی زندگی اس کے اصول پر استوار کریں اور ساری عمر اس طرز زندگی پر کاربند رہ کر دنیا سے اس طرح جائیں کہ ان کا نام ہی ان کے نظریہ حیات کی نشانی بن جائے۔ حکیم محمود احمد  سرو سہارنپوری اسی طرح کی ایک نادر روزگار شخصیت تھے! ایسی شخصیتیں اب نادر کیا ناپید ہوتی جاتی ہیں۔ آج کا ماحول تو یہ ہے کہ ہر انسان، بڑا ہو یا چھوٹا، معروف ہو یا مجہول، نفع عاجل کے حصول میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ جدھر دیکھو نفسا نفسی کا عالم ہے، کیا سلطان کیا درویش ہر ایک اسی راہ پر یکسوئی کے ساتھ چلا جا رہا ہے۔ مڑ کر بھی نہیں دیکھتا کہ کیا کھویا کیا پایا کدھر کا رخ کیا تھا اور کہاں جا نکلا۔ ایسے ماحول میں حکیم صاحب مرحوم کی شخصیت ایک وضعداری وفاداری بشرط استواری، سادگی اور خلوص کا پیکر شخصیت تھی اور آج کی فضا میں اجنبی نظر آتی تھی۔ان کی طبی مہارت کا اندازہ تو اہل فن ہی لگا سکتے ہیں لیکن یہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ ان کے مطب میں درجنوں مریض حکیم صاحب مرحوم کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھے رہا کرتے اور وہ ایک ایک شخص پر پوری توجہ دیا کرتے اور نہایت شفقت کے ساتھ مریضوں کے ساتھ اس طرح پیش آتے کہ آدھی تکلیف تو ان سے مل کر ہی رفع ہو جاتی تھی۔ مجھے بارہا ان کے مطب میں جانے کا اتفاق ہوا کبھی اپنی کسی بیماری کے علاج کے لئے کبھی دیگر افراد خاندان کے لئے۔ حکیم صاحب کے مطب میں ہمیشہ صحت کے متلاشی حضرات وخواتین کا ہجوم دیکھنے میں آیا۔ ان کا مطب ایسے علاقہ میں واقع تھا جہاں بلا مبالغہ سینکٹروں اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر صاحبان کے بڑے بڑے مطب اور ہسپتال قائم ہیں۔ جدید ترین سہولتوں سے لیس ایلوپیتھی طریق علاج کے نمائندہ ان ہسپتالوں کے جھرمٹ میں سیدپور روڈ پر حکیم صاحب کا بھی ایک سادہ سا مطب قائم تھا۔ لیکن صحت وعافیت کے متلاشی اکثر حضرات، خصوصاً کم وسائل رکھنے والے سینکڑوں لوگ رخ حکیم صاحب ہی کے مطب کا کیا کرتے۔ان کی اس قدر غیر معمولی طبی مہارت اور مقبولیت کا بظاہر تو یہ نتیجہ نکلنا چاہئے تھا کہ حکیم صاحب کا رہن سہن اور مادی طرز حیات امراء کی شان کا ہوتا بڑی بڑی گاڑیوں میں وہ پھرتے نظر آتے۔ طبقہ امراء ہی میں میل جول بڑھاتے، ہر بات اور ہر ادا سے امارت وتونگری کا ثبوت ملتا۔ مگر مجال ہے کہ حکیم صاحب نے اپنا کوئی بھی طور طریقہ بدلا ہو جس معمولی سے مکان میں وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آکر فروکش ہوئے اسی مکان میں نصف صدی سے زیادہ گذار دی۔ وہیں ان کی اولاد پلی بڑھی اور ان کی شادیاں ہوئیں، بلکہ اس معمولی سے مکان کی ظاہری ہیئت اور رنگ روغن میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ اپنی عمر کے آخری سال ایک ایسے کمرہ میں حکیم صاحب بسر کرکے دنیا سے گئے ہیں جس کا سائز مشکل سے پندرہ بیس مربع فٹ ہوگا۔ ایک چارپائی کے ساتھ دوسری چارپائی مشکل ہی سے سما سکتی ہوگی۔حکیم صاحب کی پوری  حیات ایک مشنری کی زندگی نظر آتی ہے۔ ان کا ہر قدم دین کی سربلندی، اس کے فروغ، اس کے مقاصد کی ترجمانی کے لئے اٹھتا تھا۔ اس مشن کے تقاضہ کے طور پر وہ خدمت خلق کے کاموں میں بھی بڑے بڑے فلاحی اداروں سے کسی طرح پیچھے نہ رہے۔ اپنی زندگی کے اوقات، وسائل اور خداداد صلاحیتوں سے حکیم صاحب نے بھرپور کام لیا۔ طبی مصروفیات ان کی زندگی کی لاتعداد دلچسپیوں میں سے محض ایک سرگرمی تھی۔ لیکن اس کے علاوہ دن رات کا ایک ایک لمحہ انہوں نے اس طرح مرتب اور منظم کر رکھا تھا کہ درمیان میں مشکل ہی ہے ان کو چند لمحات آرام اور راحت کے لئے بچتے ہوں گے۔ صبح سویرے مقررہ وقت پر تحریک اسلامی۔ جس کے وہ سرگرم مؤسس اور سربراہ رہے ۔ کے دفتر پہنچ جاتے۔ وہاں سے فارغ ہو کر مطب میں بیٹھتے اور تین چار گھنٹے مسلسل مصروف رہ کر شاید کچھ گھڑیوں ہی کے لیے گھر جا پاتے ہوں۔ پھر کسی مسجد میں درس قرآن دینے کی بلاناغہ پابندی کرتے۔ عصر کے بعد پھر کسی دینی یا دعوتی اجتماع میں سرگرم ہوتے۔ مغرب کے بعد کہیں اور تبلیغی سرگرمی ان کا انتظار کر رہی ہوتی۔ عشاء کے بعد کسی اور اجتماع میں شرکت کے لیے تیار ہوتے۔ حکیم صاحب کو میں نے جب دیکھا مصروف ہی دیکھا۔ کبھی ان کو اس طرح دیکھنا یاد نہیں کہ بے کار بیٹھے ہوں اور احباب کے ساتھ مجلس آرائی ہو رہی ہو حالانکہ عموماً شاعری کا ذوق رکھنے والے حضرات کی طبیعت عموماً اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔ مگر حکیم صاحب ایسے فرد تھے جو اس دنیا میں ایک مقصد کے لیے جئے۔ اپنی ساری زندگی اس مقصد کے لیے گذار دی۔ اپنی ہر صلاحیت اور جملہ وسائل اس کے لیے قربان کر دیئے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس مقصد سے غافل نظر نہیں آئے۔ یہ مقصد تھا: اسلام کی سربلندی اور اہل اسلام کی خدمت، اللہ کی رضا کا حصول اور اس کے بندوں کی بے لوث خدمت۔ بہت کم لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کی پوری شخصیت ایک اعلیٰ نصب العین کا عنوان بن جائے۔ حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری ؒ ایسی ہی نادر شخصیت تھے۔اللہ تعالی ان کی تمام مخلصانہ مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اپنے دربار میں اعلی مراتب سے نوازے۔ آمین

مزیدخبریں