امریکہ اورچین کے بگڑتے تعلقات ؟ 

جہاں کرونا اور روس یوکرین جنگ نے دنیا میں مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے وہیں امریکہ۔چین بگڑتے تعلقات دنیا کو شدید معاشی خدشات کاعندیہ دے رہے ہیں۔یہ دونوں ممالک پوری دنیا میں سب سے زیادہ تجارتی حجم رکھنے والے ممالک ہیں۔ایک اندازے کے مطابق چین پوری دنیا میں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو سالانہ2.4 کھرب ڈالراور امریکہ 1.34 کھرب ڈالرکی برآمدات کرتاہے ۔دنیا میں مارکیٹ اور کنزیومر کا ریکارڈ رکھنے والے جرمن ادارے "Staticts" کے مطابق ان دونوں ممالک کی آپس میں تجارت کا حجم 2021میں 657کھرب ڈالررہا جو کہ پوری دنیا کی تجارت کا چار فیصد ہے۔امریکا چین کو  ایئر کرافٹ ،سویا بین ،آٹوموبائلز، ادویات ،اور مشینی پرزے برآمد کرتا ہے جبکہ چین امریکہ کو زراعت کا سامان ،پھل ،سبزیاں،چائے اور باقی خام مال برآمد کرتا ہے۔خراب تعلقات کی وجہ سے یہ دونوں ممالک ا یک دوسر ے کی برآمدات پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کر رہے ہیں جس سے ان کی مقامی صنعتوں میں پروڈکشن کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں لہذا اب ان ممالک کی اشیا جو دوسری ترقی پذیر ممالک میں برآمد ہو رہی ہیں ان کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں ۔ لہذا امریکہ اور چین کے خراب تعلقات دنیا میں مہنگائی کی بڑی وجہ بنے ہوئے ہیں ۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے انہی تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے دو گھنٹے کی ورچول ملاقات ہوئی۔ملاقات ایسے حالات میں ہائی ہے جب بائیڈن چینی مینوفیکچرنگ پر امریکی انحصارکم کرنے کیلئے جو باہیڈن حکومت سیمی کنڈکٹر کمپنیوں کو امریکہ میں مزید ہائی ٹیک پلانٹس بنانے کی ترغیب دینے کے لیے قانون سازی کی منظوری دے چکی ہے اور ساتھ ہی امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی تائیوان کے جزیرے کے دورے کے منصوبے کی اطلاعات کے تناظر میں عالمی میڈیا اس ملاقات کو بہت اہمیت کی حامل قرار دے رہا ہے اور اس ملاقات کو چین امریکہ بہتر تعلقات کی طرف ایک قدم سمجھا جا رہا ہے ۔ اس ملاقات میں چینی صدر نے اپنے ہم منصب امریکی صدر کو چین امریکہ تعلقات میں حائل بہت سی وجوہات سے آگاہ کیا جن میں سے امریکہ کا تائیوان میں بڑھتا ہوااثرورسوخ نمایاں وجہ تھی۔چینی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں قابل ذکر مسئلہ بھی تائیوان رہا جس پر چین کا سخت ردعمل رہاہے۔ دونوں عالمی رہنمائوں کے درمیان 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی ورچوئل میٹنگ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین خود مختار جزیرے سے متعلق تنازع شدت اختیار کر چکا ہے، تائیوان کو چین اپنے ملک کا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ امریکہ اس کو آزاد ریاست کے طور پر دیکھتا ہے اور آزادانہ طور پر اس کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جسکی چین کی طرف سے سخت مذمت کی جا رہی ہے۔چینی میڈیا نے تائیوان سے متعلق چینی صدر کی امریکی ہم منصب کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ'' جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ آخرمیں اسی آگ میں جل جائیں گے''۔لہذا اس ملاقات میں چینی صدر اپنے ہم منصب کو اس بات کی تنبیہ کرتے ہوئے نظر آئے کہ وہ تائیوان کے معاملے سے خود کو دور رکھیں اور اس آگ میں خود کو نہ دھکیلیں۔ماہرین کا کہنا ہے ان رہنمائوں کی ملاقات دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات ختم کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے انکے مطابق اتنی مخالفت کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی دنیا کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔البتہ ملاقات کے بعد جاری پریس ریلیز میں دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارت کے حوالے سے ٹیرف کے معاملے کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ امریکی میڈیا اسے ممکنہ معاہدے کے طور پر لے رہا ہے کہ شاید چین اور امریکہ کے درمیان تجارت پر ٹیرف ہٹانے پر معاملات پا چکے ہیں اور چین اور امریکہ ایک مستحکم اور متوقع سمت میں تعاون کر سکتے ہیںتاہم دیکھنا یہ ہے کہ امریکی میڈیا اور کانگریس کے ممبران تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔اس ملاقات میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ'' دنیا ایک نازک لمحے میں ہے۔ امریکہ اور چین کے تعاون سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ تمام ممالک کے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ امریکہ کو امید ہے کہ باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے اور غلط فہمی اور غلط حساب کتاب سے بچنے کے لیے چین کے ساتھ راوابط جاری رکھے گا، اور چین کے ساتھ مل کر ہروہ کام کرے گا جہاں دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہوںگے اور ساتھ ہی ساتھ اختلافات کو بھی مناسب طریقے سے حل کیاجائیگا''۔چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق اس ملاقات کے فورا بعد ہی چین کے ایک بڑے تھنک ٹینک کا اجلاس ہوا جس میں چین کے مختلف ڈیپارٹمنٹس سے لوگوں نے شرکت کی، اس اعلامیہ میں یہ واضح طور پر موجود تھا کہ نینسی پلوسی کی ممکنہ دورہ تائیوان پر چین کی طرف سے سخت رد عمل آئے گا۔
اس مسئلے میں چینی حکام کا کہنا تھا کہ تائیوان کی فضائی حدود کو چین میں فوجی مشقوںکی وجہ سے تمام تر ہوائی ٹریفک کے لئے بند کر دیا ہے لہذا اگر امریکی اسپیکر کا طیارہ تائیوان کی حدود میں داخل ہوا تو اس کو چین کی خودمختاری کوچیلنج سمجھ کر مار گرایا جائیگا۔انکامزیدکہناتھاکہ چین خود مختاری کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ یہ تمام صورتحال اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ مستقبل قریب میں دنیاکو ایک نئے تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس لیے عالمی معاشی صورتحال اورترقی پذیر ملکوں کی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کو کسی بھی نئے تنازعے سے بچنا ہو گا کیونکہ اگر دنیا کی معیشت مزید بگڑی تو اس کے اثرات سے عالمی طاقتیں بھی محفوظ نہ رہیں گی۔

ای پیپر دی نیشن