خدارا پاکستان کی فکر کیجیے

وطن عزیز اس وقت بہت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ویسے تو اپنی تاریخ کے 75 سالوں میں سے بیشتر وقت ہم مشکلات کا شکار ہی رہے ہیں مگر آجکل حالات بہت سے حوالوں سے مختلف نوعیت کے ہوچکے ہیں اور مشکل بھی۔ ملک میں سیاسی افراتفری، غیریقینی، عدم استحکام اور انتشار عروج پر ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ نہ جانے کیا ہوگا۔ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دشمن خوش ہیں کہ جو کام وہ اتنی کوشش اور محنت سے ابھی تک نہیں کر سکے تھے وہ ہم خود کر رہے ہیں۔ عدم تحفظ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل سے تو عوام پہلے ہی بہت پریشان ہیں ان میں مزید اضافہ آج کل کے سیاسی عدم استحکام نے کیا ہے۔پاکستانی روپیہ بہت تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے جبکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں گذشتہ کئی دنوں سے شدید مندی کا رجحان ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستانی معیشت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیاہے۔ روپے کی قدر تیزی سے کم ہونے کی وجہ سے غیرملکی قرضوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ سرمایہ کاری تقریباً رُک گئی ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیاں بہت حد تک کم ہو گئی ہیں۔ لوگوں میں ایک  خوف و ہراس کی کیفیت ہے جس کی وجہ سے افواہوں کا بازار بھی گرم ہے۔ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار اور صنعت کار بھی اس ساری صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔
آج کل کی دنیا میں کمزور معیشت ملکی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جسے پہلے ہی لاتعداد خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے لئے معیشت کا اتنی تیزی سے تنزلی کی طرف جانا یقینا ایک بڑی تشویشناک بات ہے۔ ویسے تو ہماری معیشت گذشتہ کئی سالوں سے تنزلی کا شکار ہے مگر ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں غیریقینی صورتحال نے یہ سارا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اپریل میں ایک آئینی اور قانونی طریقہ کے تحت حکومت کی تبدیلی کے بعد امید تھی کہ ملکی معیشت میں کچھ تیزی آئے گی ۔ عمران خان کی پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی جس طرح خلاف ورزی کی تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے اس سے ان کو سیاسی فائدہ تو یقینا حاصل ہوا ہے مگر ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف سے پروگرام بحالی کیلئے مذاکرات شروع کئے مگر معروضی حالات کی وجہ سے انہیں آگے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنے میں بین الاقوامی منڈی میں تیل اور زرعی اجناس کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بھی ان دنوں شدید دبائو کا شکار ہیں اور مہنگائی اب ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ سری لنکا ابھی حال ہی میں ڈیفالٹ کا شکار ہوا ہے ۔
اس ساری صورتحال کی وجہ سیاسی انتشار ہے جو بنیادی طور پر عمران خان نے گذشتہ تین ماہ سے ملک میں پھیلا رکھا ہے۔ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت وہ مرکز اور پنجاب حکومت کو چلنے نہیں دے رہے، جلسے جلوسوں اور بیانات کے ذریعے عوام کو گمراہ کیاجارہاہے، تاکہ لوگ حکومت اور حالات سے بددل ہوں اور ملک میں بے چینی بڑھے۔گزشتہ تین ماہ سے پنجاب میں اقتدار کا ایک عجیب سا کھیل جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک عجیب سے ہیجان جیسی صورتحال سے دوچار ہے، حکومت کو  چلنے نہیں دیاجارہا جس کا اصل نقصان عوام کو ہورہاہے، سیاست کو جھوٹ منافقت، الزام تراشی، کردار کشی اور گالم گلوچ کا میدان بنادیاگیاہے، زندگی کے ہر شعبے میں ایک خطرناک تفریق پیدا کردی گئی ہے جس کی بنیاد نفرت کی بناء پر سیاسی تقسیم ہے، سیاسی مخالفت کو نفرت اور دشمنی کی حد تک بڑھادیاگیاہے، اپنی سیاسی سوچ اور بیانیے کو آگے بڑھانے کیلئے جھوٹ اورنفرت کا سہارا لیاجارہاہے آئین اور قانون کا کوئی احساس نہیں اور نہ ہی کوئی شخص یا ادارہ مقدم رہاہے، ادارو کومتنازعہ بنادیاگیاہے اور ان کو دبائو میںلانے کیلئے خطرناک طریقے اپنائے جارہے ہیں،  اس ساری صورتحال، کیفیت اور منظرنامے کا اصل ذمہ دار عمران خان ہے جو اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے یہ سب کھیل زوروشور سے کھیل رہاہے اور اسے اپنا بیانیہ اور اس کی کامیابی قرار دے رہاہے،بدقسمتی سے اس ساری مہم کے روحِ رواں اور بنیادی مرکز اس نے پاکستان کی نوجوان نسل کو بنایا ہوا ہے جو یقینا گمراہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن جیسا معتبر ادارہ بھی انکے غیض و غضب سے محفوظ نہیں۔ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک کے ہر ادارے میں نفاق پیدا کر کے اسے متنازعہ بنا دیا گیاہے جس کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔ آج کوئی بھی ادارہ یا شخصیت ایسی نہیںجو صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سب کو ایک جگہ اکٹھا بٹھا کر صلح جوئی کے ساتھ معاملات حل کرے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کی سلامتی کے ساتھ ہی ہماری سیاست، عہدے اور جاہ و جلال وابستہ ہے۔ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے اور ہر کوئی اپنے مفاد کی ترویج کیلئے آنکھیں بند کر کے لگا رہا تو خدانخواستہ ملک ہی نہ گنوا بیٹھیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...