المیہ یہ ہے کہ ملک عزیز میں ہمیشہ سے ڈنگ ٹپائو منصوبوں پر کام ہو تا رہا ہے۔ یہی حال معاشی شعبہ میں بھی رہا۔ نہ کبھی مستحکم حکومت بنی اور نہ ہی کوئی ٹھوس معاشی پالیسی بنائی گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت پاکستان ترقی یافتہ ممالک تو دور کی بات‘ ترقی پذیر ممالک کی صف میںبھی شامل نہیں ۔کرنسی کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ الحمدللہ ا رض پاک کو اللہ رب العزت نے بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو پاکستان کسی بھی ملک سے کم نہیں۔ سونے، چاندی، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے دفن ہیں۔ نایاب قیمتی پتھر اور ہیرے جواہرات کی بہتات ہے۔ تیل، گیس اور کوئلے کی کمی نہیں۔ زرخیز زمین سونا اگل رہی ہے۔کون سا پھل اور کونسی زرعی جنس ہے جو پاکستان میں نہیں ۔ پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی ذہین ترین قوموں میں ہوتا ہے جس کا نظارہ عالمی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے اس عظیم مملکت کی معیشت تباہ ہوئی۔ کیسے اس کو قرضوں میں جکڑ دیا گیا اور ان قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہوئی اور ہو رہی ہے۔ ماہرین معاشیات ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس قوم نے کشکول کیوں پکڑا اور یہ کشکول لیے دنیا میں کیوں رسوا ہو رہی ہے۔ اب تو حالت یہ ہوگئی کہ کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں‘ اگر کہیں سے ملنے کی خبر آئے تو نہال ہوجاتے ہیں۔
حکمرانوں کا تو علم نہیں‘ لیکن ملک عزیز کا سنجیدہ طبقہ فکر مند ہے۔ عام آدمی مایوس ہو چکا ہے ۔ معروف سائنس دان اور ماہر موسمیات جناب عبداللطیف نقشبندی نے اپنی کتاب شاہین کا جہاں اور میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے حوالے سے ایک نصیحت آموز واقعہ قلمبند کیا۔ لکھتے ہیں کہ حضور بابا صاحب کے لنگر خانہ کا نظام حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے ذمہ تھا۔ہوا یوں کے ایک دن آپ نے کھانا تیار کروایا اور بابا صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔آپ کے تناول فرمانے کے لیے لقمہ اٹھایا تو حضرت خواجہ نظام الدین سے پوچھا نظام الدین کیا بات ہے لقمہ گراں ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ حضور لنگر کی تیاری میں ہر کام آپ کے حکم کے مطابق مکمل کیا گیا ہے‘ لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نمک ادھار لیا گیا۔ بابا صاحب نے بہت قیمتی تربیتی جملہ ارشاد فرمایاکہ نظام الدین! اولیاء اللہ فاقے سے مر جائیں مگر لذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے۔ آپ نے کھانا تناو ل نہ فرمایا۔ شیخ الاسلام کا کی یہ نصیحت اگرچہ بہت سادہ ہے‘ لیکن غورفکر کریں توبہت گہری ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میںقرض جیسے مرض سے بچنے کا اکسیر نسخہ ہے۔ نہیں معلوم کہ ملک عزیز پہلی بار کب قرض کی لعنت میں گرفتار ہوا‘ لیکن گمان یہی ہے کہ یہ قرض لذت نفس کے لیے ہی لیا گیا۔ اگر اس وقت لذت نفس کے لیے یہ قرضہ نہ لیا جاتا اور کچھ عرصہ فاقے برداشت کر لیے جاتے تو آج قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب کر سسک سسک کر نہ مررہی ہوتی۔ ملک پاکستان کا شمار باوقار اور خودمختار ممالک میں ہوتا۔ یہ لذت نفس کیا ہے۔ یہ عیاشیاں، لوٹ مار، وسائل کی خورد برد اور مراعات یافتہ طبقہ کے اللے تللے ہی تو ہیں۔ مفت پر تعیش سرکاری رہائش، مفت پٹرول، مفت بجلی، لگژری گاڑیاں اور پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں کے قافلے لذت نفس ہی تو ہے۔ سانحہ یہ ہے کے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور نہ کسی کو پروا ہے ہر کوئی اقتدار کی نورا کشتی میں مصروف ہے ۔
بابا سائیں کا عرس مبارک پاکپتن شریف میں انتہائی عقیدت اور احترام سے منایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر سے مسلم اور غیر مسلم عقیدت مند جوق در جوق شرکت کر رہے ہیں۔آپ سراپا محبت اور مجسم شفقت تھے۔ آپ پنجابی زبان کے اولین صاحب دیوان شاعر تھے۔ آپ نے شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے دکھی انسانوں کی ترجمانی کی۔ آپ کا ایک ایک شعر علم و حکمت کا سمندرہے اور کردار سازی، شخصیت سازی، انسان سازی اورقوم سازی کے لیے بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بابا صاحب کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ دانشور اور اہل قلم عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان رہنما اصولوں کی تشریح کریں اور ان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ قوم کی نجات اسی میں ہے گملوں میں اگائے گئے دانشوروں کی تعلیمات پہ چل کے دیکھ لیا جہاں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیںملا۔ اب حقیقی دانش کی تلاش ہی واحد حل ہے۔
قرض سے نجات کا مجرب نسخہ
Aug 01, 2022